ہندو، مسلم اور مسیحی لڑکیوں کی اجتماعی شادی
26 دسمبر 2017نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹ کے مطابق بھارتی تاجر مہیش سوانی نے ریاست گجرات کے شہر سورت میں ہندو، مسلمان اور مسیحی جوڑوں کی اجتماعی شادی کا انعقاد کیا۔ سوانی گزشتہ کافی عرصے سے ایسی لڑکیوں کی شادیاں کرا رہے ہیں جو اپنے والد کھو چکی ہیں اور جن کے خاندان اس قابل نہیں کہ وہ ان لڑکیوں کی شادیاں کر اسکیں۔
سن 2012 سے سوانی اب تک لگ بھگ ایک ہزار لڑکیوں کی شادیاں کرا چکے ہیں۔ سوانی نے ڈی پی اے کو بتایا،’’ میرے دو بیٹے ہیں، میری کوئی بیٹی نہیں۔ میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میری بیٹی ہو۔‘‘ سوانی کا کہنا ہے،’’ یہ سب میری بیٹیاں ہیں۔ میں ان کے باپ کی طرح ہوں۔ انہیں خوش دیکھ کر مجھے بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔‘‘
سوانی کی رائے میں ’کن یا دان‘ سے بڑھ کر کچھ بھی مقدس نہیں ہے۔ ہندو رسم کن یا دان کا مطلب اپنی بیٹی کی شادی کرا کے اسے اپنے گھر سے رخصت کر دینا ہے۔ سوانی نے بتایا کہ اس سال ان کے ایک دوست باتک بھائی مووالایا نے بھی اس اجتماعی شادی کے انعقاد میں ان کی مدد کی۔
سوانی نہ صرف شادی کرانے کے اخراجات برداشت کرتے ہیں بلکہ دلہنوں کو سونے اور چاندی کا زیور بھی دیتے ہیں اور گھریلو اشیاء بھی۔ ان کے ایک ساتھی روی وانجا کے مطابق سوانی ہر لڑکی کو چار لاکھ بھارتی روپے ماليت کے تحفے دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ شادی کے بعد وہ بچوں کی فیس اور حاملہ ماؤں کا زچگی کا خرچ بھی اٹھاتے ہیں۔
بھارت میں غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد میں اجتماعی شادیوں کا رواج عام ہے۔ ان شادیوں کا انعقاد مقامی کمیونٹی ممبران یا مقامی رہنماؤں کی جانب سے کرایا جاتا ہے۔
بھارت میں اجتماعی شادی، دلہنوں کو کئی ہزار ڈالر کے تحفے بھی دیے گئے