ہیٹی میں اقوام متحدہ کے امن دستوں پر پتھراؤ
19 نومبر 2010جمعرات کو ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ او پرانس میں زلزلہ متاثرہ مظاہرین نے ہیضے کے پھیلاؤ کو مناسب طریقے سے روکنے میں ناکامی پر احتجاج کیا۔ اس دوران مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں بھی ہوئیں۔
اطلاعات کے مطابق مشتعل مظاہرین نے پولیس اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں پر پتھر برسائے اور کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ مقامی ذارئع ابلاغ کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا۔ پیر کو ایسے ہی مظاہروں کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
کئی مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ وباء اقوام متحدہ کے امن مشن میں موجود کچھ لوگوں کی وجہ سے پھیلی ہے جبکہ اقوام متحدہ اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتی ہے۔ ہیٹی حکومت کے مطابق یہ تازہ مظاہرے ایک منصوبہ بندی کے تحت کروائے جا رہے ہیں، جن کا مقصد سیاسی انتشار پیدا کرنا ہے۔ حکام کے مطابق ان مظاہروں کا مقصد اٹھائیس نومبر کو منعقد ہو رہے صدارتی انتخابات میں خلل ڈالنا ہے۔
ہیٹی میں اب تک اس وباء کے نتیجے میں کم ازکم گیارہ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اندازوں کے مطابق کوئی اٹھارہ ہزار افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ ہیضے کا پہلا کیس انیس اکتوبر کو رپورٹ ہوا تھا۔ اگرچہ ہیٹی حکومت نے اس سے نمٹنے کے لئے فوری طور پر ہنگامی حالت نافذ کر دی تھی تاہم یہ وباء مزید پھیل رہی ہے۔ اس وقت یہ وباء ہیٹی بھر میں پھیل چکی ہے، جس کی وجہ سے اقوام متحدہ نے سنگین خطرات سے خبردار کیا ہے۔
ہیٹی میں عوام اس مہلک بیماری کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں رکھتے ہیں جبکہ زلزلے سے تباہ حال اس ملک میں صفائی ستھرائی کی صورتحال بھی کافی تشویشناک ہے، جس کی وجہ سے اس وباء کے مزید پھیلنے کے خدشات بہت زیادہ بیان کئے جا رہے ہیں۔ امریکی طبی ماہرین کے مطابق عارضی پناہ گاہوں میں مقیم کئی لاکھ افراد پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کے بنیادی نظام سے محروم ہیں، جو اس وباء کے پھیلنے کے اہم محرکات ثابت ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ : عاطف بلوچ
ادارت : شادی خان سیف