یروشلم: اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس ہو گا
20 دسمبر 2017سلامتی کونسل کے اجلاس میں یروشلم سے متعلق مصر کی پیش کردہ قرارداد کو چار مستقل ارکان سمیت چودہ ممالک کی حمایت حاصل رہی تھی، تاہم امریکا نے اسے ویٹو کر دیا تھا۔ سکیورٹی کونسل میں ویٹو کیے جانے کے بعد ترکی اور یمن کی درخواست پر اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک پر مشتمل جنرل اسمبلی کا اجلاس جمعرات اکیس دسمبر کو طلب کر لیا گیا ہے۔
یروشلم: ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹنگ آج
فلسطینی علاقوں میں اسرائیل مخالف مظاہرے، چار افراد ہلاک
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نِکی ہیلی نے جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب کیے جانے پر ملکی صدر ٹرمپ کی طرح دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا، ’’جمعرات کے روز ہمارے فیصلے پر تنقید کرنے کے لیے ووٹ ڈالیں جائیں گے۔ امریکا ہر ایک کو شکست دے گا۔‘‘
عرب لیگ اور او آئی سی کے ایما پر جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی درخواست ترکی اور یمن نے دی تھی۔ ان ممالک کی جانب سے پیش کردہ قرارداد کے مسودے کی تحریر سلامتی کونسل میں جمع کرائی گئی مصری قرارداد ہی کی نقل ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں اس قرارداد کو چودہ ممالک کی حمایت حاصل تھی جن میں امریکا کے سوا چاروں مستقل رکن ملک بھی شامل تھے۔ تاہم امریکا نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔
اقوام متحدہ میں فلسطین کے نمائندے ریاض منصور کے مطابق انہیں توقع ہے کہ جنرل اسمبلی میں بھی اس قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کر لیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’یروشلم کا معاملہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین مذاکرات سے حل کیا جانا ہے۔‘‘
عالمی سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان امریکا، برطانیہ، چین، فرانس اور روس کو ویٹو کے اختیارات حاصل ہیں۔ اس کے برعکس جنرل اسمبلی سے منظور کی گئی قرارداد کو کوئی بھی رکن ویٹو نہیں کر سکتا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے رواں ماہ چھ دسمبر کو یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک میں اس اعلان کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ سلامتی کونسل میں امریکا کے اتحادی سمجھے جانے والے برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان اور یوکرائن جیسے ممالک نے بھی اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالا تھا۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے اس امر پر شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ’توہین آمیز‘ قرار دیا اور خبردار کیا تھا کہ امریکا ’اس بات کو نہیں بھولے گا‘۔ پیر اٹھارہ دسمبر کے روز نکی ہیلی نے اپنے اتحادیوں کو خبردار کرتے ہوئے مزید کہا، ’’اقوام متحدہ میں ہمیشہ ہم سے ’مزید اقدامات کرنے کا مطالبہ‘ کیا جاتا ہے۔ جب ہم امریکی عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلہ کریں کہ ہم کس جگہ اپنا سفارت خانہ بنانا چاہتے ہیں، تو ہم ایسے ممالک سے، جن کی ہم ہمیشہ مدد کرتے ہیں، یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ بھی ہمیں نشانہ بنائیں گے۔‘‘