یمنی حوثی ملیشیا کو امریکا بلیک لسٹ کر سکتا ہے
5 دسمبر 2020خلیجی ریاست عُمان کے وزیر خارجہ سید بدر البُسیدی نے بتایا ہے کہ یمن کی ایران نواز عسکری تحریک حوثی کو امریکا جلد ہی بلیک لسٹ کرنے کا عملی اقدام کر سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حوثی ملیشیا کو بلیک لسٹ کرنے کا معاملہ ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار کے حالیہ دورے کے دوران زیرِ بحث لایا گیا تھا۔ امریکا اس عسکری تنظیم کو بلیک لسٹ قرار دے کر اسے دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کر دے گا۔
مسئلے کا حل بلیک لسٹ کرنا نہیں
عُمانی وزیر خارجہ سید بدر البُسیدی نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو واضح الفاظ میں بتایا کہ حوثی ملیشیا کے ساتھ ایسا کچھ ہونے والا ہے۔ البُسیدی نے یہ بات بحرین سمٹ کے موقع پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی تھی۔ امریکی سفارت کار ڈیوڈ شینکر اس معاملے کو اپنے حالیہ مشرقِ وسطیٰ کے دورے کے دوران خلیجی ریاستوں کے اعلیٰ اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتوں میں زیرِ بحث لائے تھے۔
یمن سے شدید علیل افراد کی علاج کے لیے بیرون ملک روانگی
بحرین سمٹ کا انعقاد رواں برس سات اکتوبر کو بحرینی دارالحکومت منامہ میں کیا گیا تھا۔ عُمانی وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی مسئلے کے ایک فریق کو بلیک لسٹ قرار دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ دیرپا حل مذاکرات کی میز پر طے کیا جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا مذاکراتی عمل
یمنی تنازعے کے پرامن حل کے حوالے سے اقوام متحدہ اپنا مذاکراتی سلسلہ پھر سے بحال کرنے کی کوشش میں ہے۔ یہ مذاکراتی عمل سن دو ہزار اٹھارہ کے اواخر میں تعطل کا شکار ہو کر رہ گیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ سن دو ہزار پندرہ سے سعودی قیادت میں قائم عسکری اتحاد یمنی حوثی ملیشیا سے برسرپیکار ہے اور ابھی تک ایران نواز ملیشیا ملکی دارالحکومت صنعاء پر قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔
سید بدر البُسیدی نے اس تناظر میں واضح کیا کہ ان کا سوال بدستور یہی ہے کہ تنازعے کے ایک کلیدی فریق کو بلیک لسٹ قرار دینے سے مسئلہ بہتر انداز میں حل ہو سکتا ہے یا اقوام متحدہ کے مذاکراتی سلسلے کو تقویت دے کر ایک مستقل حل تلاش کیا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے سفیر فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کو کوشش میں ہیں۔
سعودی عرب، امارات میں نو حساس مقامات ہمارے اہداف، حوثی باغی
یمنی تنازعہ اور مرکزی کردار
عرب امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ یمن کا مسلح تنازعہ بنیادی طور پر اقتدار و اختیار کے حصول کی جنگ ہے۔ ایک فریق بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنی حکومت اور اس کا حمایتی سعودی عرب ہے جبکہ دوسرا حوثی عسکری تحریک ہے اور اس کا حلیف ایران ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یمن میں ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے بالمقابل آئے بغیر یعنی پراکسی جنگ میں مصروف ہیں۔ اس کا آغاز سن دو ہزار چودہ میں اس وقت ہوا جب حوثی ملیشیا نے بظاہر کرپشن کے خلاف عملی کارروائی کرتے ہوئے سعودی حمایت یافتہ حکومت کو اقتدار کے ایوان سے نکال باہر کیا تھا۔ حوثی تنظیم مسلسل اس سے انکار کرتی ہے کہ وہ ایران کی کٹھ پتلی ہے۔
دوسری جانب یمن کا تنازعہ ایک انسانی المیے کا روپ دھار چکا ہے۔ اس کی اسی فیصد آبادی بھوک، افلاس، محرومی اور بیماریوں کی دہلیز پر پہنچ گئی ہے اور انٹرنیشنل امداد کی طلبگار ہے۔
ع ح، ع آ (روئٹرز)