یمن خانہ جنگی کی دہلیز پر
28 مئی 2011یمن میں گزشتہ دنوں خلیجی تعاون کونسل کے مجوزہ پلان کو 33 سال سے منصب صدارت پر براجمان علی عبداللہ صالح نے حیلوں بہانوں سے قبول کرنے سے تیسری بار انکار کر دیا۔ اس کے بعد سے یمن کی اندرونی صورت حال انتہائی خراب ہونے سے عام انسانوں کی زندگیاں خوف و ہراس سے عبارت ہیں۔ لوگ اپنے مال و اسباب کے ساتھ یمن کے دارالحکومت صنعاء سے دور نکلنے کی جستجو میں لگے ہیں۔ صنعاء میں حکومتی فوج بھی اپنی سی کوششوں میں ہے کہ شہر کے اندر قبائلی سردار صادق الاحمر کے لیے کسی طور مزید کمک داخل نہ ہو سکے۔
فوج اور صالح حکومت کے مخالف قبائلی سرداروں کے درمیان جنگ دارالحکومت سے باہر کی جانب پھیلتی جا رہی ہے۔ اس خانہ جنگی کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بھی صدر صالح اقتدار سے فوری طور پر مستعفی ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دارالحکومت میں اہم اور طاقتور قبیلے ہاشید کے سردار صادق الاحمر کے لشکریوں اور فوج کے درمیان لڑائی گزشتہ ہفتے سے مختلف مقامات پر وقفے وقفے سے جاری ہے۔ یمن کے جنگی طیارے بھی فضا میں گردش کر نے لگے ہیں۔ اسی قبائلی سردار کے حامیوں نے صنعاء میں کئی سرکاری دفاتر کی عمارتوں پر دھاوا بولنے کے بعد ان پر قبضہ بھی کر رکھا ہے۔ کل جمعہ کے روز صنعاء کے مرکزی چوک پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئےالاحمر نے بتایا تھا کہ جنگ بندی کے لیے فریقین میں مذاکراتی عمل جاری ہے۔ قبائلی سردار اپوزیشن کی ایک مذہبی سیاسی جماعت کے حامی بتائے جاتے ہیں۔
صنعاء کے شمال مشرق میں نہم کے علاقے میں صالح کے مخالفین نے ایک اہم اور بڑی فوجی چوکی پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسی طرح دارالحکومت کے جنوب میں سرکاری فوج کو دو مختلف مقامات پر قبائلی سرداروں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ نہم دارالحکومت سے تقریباً سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ نہم کے قبائلی سردار شیخ حامد عاصم کا کہنا ہے کہ ایک فوجی چوکی کے کمانڈر کو صالح مخالفین نے ہلاک کر کے چوکی پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسی علاقے میں یمنی فضائیہ نے ان قبائلی جنگجوؤں پر بمباری بھی کی تھی، جو ایک قریبی اسلحہ ڈپو سے ذخیرہ شدہ اسلحہ اٹھانے کی کوشش میں تھے۔
کل بروز جمعہ دارالحکومت صنعاء کی سڑکوں پر ہزاروں افراد نے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد جمعہ کے دن کو امن انقلاب کے نام کرتے ہوئے صالح کے خلاف زوردار نعرہ بازی کی۔ اس بڑی ریلی کے شرکاء نے امن کے حوالے سے بےشمار فاختاؤں کو فضا میں آزاد کیا۔ اس ریلی میں نماز جنازہ کے لیے ان تیس افراد کی میتوں کے تابوت بھی تھے، جو سرکاری فوج کی کارروائی کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔ پچھلے ہفتے کے دوران صرف صنعاء ہی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سوا سو کے قریب بتائی جاتی ہے۔
عالمی برادری بھی علی عبداللہ صالح پر زور دے رہی ہے کہ وہ فوری طور پر منصب صدارت سے علیٰحدہ ہو کر اپنے ملک میں امن و سلامتی کی فضا قائم کریں۔
رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی