یمن کی امداد کے لیے مطلوبہ رقم سے بہت کم موصول ہوئی
28 فروری 2023اقوام متحدہ نے جنیوا میں ہونے والی اپنی ساتویں سالانہ یمن ڈونرز کانفرنس میں انسانی امداد کے لیے رکن ممالک سے 4.3 بلین ڈالر عطیہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس اجلاس کی میزبانی مشترکہ طور پر سویڈن اور سوئٹزرلینڈ کر رہے تھے۔
یمن میں 11 ہزار بچے ہلاک یا زخمی ہوئے، اقوام متحدہ
تاہم 30 سے زائد ممالک نے جو رقم مہیا کرنے کا وعدہ کیا وہ مطلوبہ رقم کے بجائے محض 1.2 بلین ڈالر ہے، جو ہدف سے بہت کم ہے۔
یمن: علیحدگی پسندوں اور القاعدہ کے جنگجوؤں کے درمیان جھڑپوں میں متعدد افراد ہلاک
جنگ زدہ جزیرہ نما عرب ملک یمن میں خوراک اور صحت کی سروسز کے لیے رقم درکار ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 21 ملین سے زیادہ افراد یعنی ملک کی تقریباً دو تہائی آبادی کو فوری طور پر انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
یمن کے حوثی باغی طالبان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے
'یمن کی رفتار بدلنے کے لیے امداد اشد ضروری'
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے پیر کے روز میٹنگ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا، ''آؤ مل کر، آخر کار مصائب کی اس لہر کا دھارا موڑ دیں۔ آئیے یمن کے لوگوں کی امید بن جائیں۔ اس سال ہمارے پاس ایک حقیقی موقع ہے کہ ہم یمن کی رفتار کو بدلیں اور امن کی طرف بڑھیں۔''
یمنی جنگ شہد کی مکھیاں بھی کھا گئی
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ رواں برس عالمی سطح پر اس کو 51 ارب ڈالر کی فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ اس نے عالمی معاشی صورتحال کو تسلیم کرتے ہوئے عطیات کے حصول میں مشکل کا اعتراف کیا، تاہم اس بات پر بھی زور دیا کہا کہ مصیبت زدہ لوگوں کے لیے فوری امداد کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ نے ایک بیان میں کہا: ''عالمی سطح پر ریکارڈ انسانی ضروریات میں اضافے عطیہ دہندگان کی امداد میں بھی اتنا اضافہ کر رہی کہ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا، لیکن مستقل مدد کے بغیر یمن میں امدادی کارروائیاں جاری رکھنا بھی مشکل اور اس سے لاکھوں یمنیوں کی زندگیاں معلق ہیں۔
اقوام متحدہ میں محکمہ انسانی ہمدردی کے سربراہ مارٹن گریفتھس نے اس صورت حال کو ''افسوسناک'' قرار دیا اور کہا کہ اس برس یمن کے لیے یہ ڈونر زکی ساتویں کانفرنس تھی۔ انہوں نے کہا، ''حقیقت تو یہ ہے کہ یمن کا بحران بہت طویل ہو چکا ہے، جس سے لاکھوں بے گناہ لوگوں کو سزا مل رہی ہے، جو یہ سب قطعی نہیں چاہتے اور وہ اس سے بہت بہتر کے مستحق ہیں۔''
گزشتہ برس بھی عطیہ دہندگان نے 2.2 بلین ڈالر کے فنڈز مہیا کیے تھے، جبکہ اقوام متحدہ نے 4.27 بلین ڈالر کی درخواست کی تھی۔
امریکہ اور جرمنی کا انسانی بحران کے ختم کرنے کا مطالبہ
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن ویڈیو کے ذریعے ڈونرز کانفرنس میں شریک ہوئے اور اعلان کیا کہ واشنگٹن امدادی فنڈنگ میں 444 ملین ڈالر مہیا کرے گا۔
بلنکن نے کہاکہ امریکہ نے تنازعے کے آغاز سے لے کر اب تک مجموعی طور پر 5.4 بلین ڈالر کا تعاون کیا ہے۔ انہوں نے خانہ جنگی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا، ''جب تک لڑائی جاری رہے گی، مصائب بھی جاری رہیں گے۔''
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے برلن کی طرف سے 120 ملین یورو فراہم کرنے کا اعلان کیا اور ''انسانی تباہی'' پر دنیا کی جانب سے آنکھیں بند کرنے پر شدید تنقید کی۔
اقوام متحدہ کے سربراہ گوٹیرش نے کہا کہ یمن کی صورت حال جتنی بھی سنگین کیوں نہ ہو، اچھی بات یہ ہے اقوام متحدہ کی ثالثی میں گزشتہ اپریل سے ہونے والا امن معاہدہ، اکتوبر کے اوائل میں ختم ہونے کے باوجود، بڑے پیمانے پر اب بھی برقرار ہے۔ انہوں نے اسے ''مستقبل کے تئیں امید کا ایک پیمانہ'' قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ''برسوں کی موت، نقل مکانی، تباہی، فاقہ کشی اور مصائب کے بعد، بالآخر جنگ بندی لوگوں کے لیے کافی سود مند ثابت ہوئی ہے۔
برسوں کی خانہ جنگی کے سبب تباہی کا سامنا
یمن کا تنازعہ گزشتہ آٹھ برسوں سے جاری ہے، جو سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد اور ایران کے حمایت یافتہ باغی جنگجوؤں کے درمیان ہے۔ حوثی باغیوں نے سن 2014 میں یمن کے دارالحکومت صنعا پر حملہ کیا تھا اور ملک کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
اس کے بعد سے اب تک دسیوں ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں اور اس تنازعے نے ملک کے بنیادی ڈھانچے اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔
مستقل جنگ بندی کے قیام اور شمولیتی سیاسی مذاکرات شروع کر کے تنازعے کو ختم کرنے کی اقوام متحدہ کی کوششوں کے ساتھ ہی، عمان کی مدد سے سعودی عرب اور حوثی باغی براہ راست بھی مذاکرات کر رہے ہیں۔
فی الوقت لڑائی بڑی حد تک رکی ہوئی ہے، تاہم یمن کو بدستور دنیا کی بدترین انسانی آفات میں سے ایک کا سامنا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)