یمن کے لیے امریکی امداد بند کی جائے، ہیومن رائٹس واچ
19 مارچ 2011یمن میں گزشتہ کئی ہفتوں سے حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے لیکن جمعے کے روز ہونے والی قتل و غارت گری اب تک کا خونریز ترین واقعہ تھا۔ عینی شاہدین نے مختلف خبر رساں اداروں کو بتایا کہ صدر صالح کے حامی دستوں نے صنعاء یونیورسٹی کے قریب واقع عمارتوں کی چھتوں سے مظاہرین کو نشانہ بناتے ہوئے ان پر فائرنگ کی۔ اے ایف پی کے ایک نمائندے نے بتایا کہ احتجاج میں شریک افراد نے عمارتوں کا گھیراؤ کرتے ہوئے فائرنگ کرنے والے چھ افراد کو اپنے قبضے میں کر لیا۔
اس واقعے کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اپنے اس اہم ساتھی ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’یمن کے حکام کو پر امن احتجاج کی اجازت دینی چاہیے۔ یہ وہاں کے عوام کا بنیادی حق ہے‘‘۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے سے وابستہ ماہر کرسٹوف ہینز نے اسے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گھات لگا کر فائرنگ کرنے والوں کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹہرایا۔
یمن کے صدر علی عبداللہ صالح نے 40 سے زائد افراد کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مرنے والوں کو جمہوریت کے شہداء کا لقب دیا ۔’’جو کچھ بھی ہوا اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ میں نے سلامتی کے اداروں کو مظاہرین کی حفاظت کرنے کے احکامات دیے تھے‘‘۔ صدر صالح نے اس موقع پر فائرنگ میں پولیس کے ملوث ہونے کی تردید کی۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے امریکی حکومت سے یمن کو دی جانے والی فوجی امداد کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تنظیم کے مطابق جب تک علی عبداللہ صالح مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال بند نہیں کرتے، تب تک انہیں کسی قسم کی فوجی امداد نہیں دی جانی چاہیے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: عاطف توقیر