یورپی یونین نے ریپڈ ری ایکشن فورس کی منظوری دے دی
22 مارچ 2022یورپی یونین کے وزراء دفاع اور خارجہ نے 21 مارچ پیر کے روز مشترکہ طور پر ایک نئی سکیورٹی حکمت عملی کو منظوری دے دی۔ جسے ''اسٹریٹیجک کمپاس'' کا نام دیا گیا ہے۔ اس حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر، یورپی یونین زیادہ سے زیادہ 5,000 فوجیوں پر مشتمل ایک سریع الحرکت فورس تشکیل دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس نئی حکمت عملی کے تحت یورپی یونین ان جنگی گروپوں کا بھی از سر نو جائزہ لے گی جو سن 2007 کے بعد سے اب تک صرف کاغذوں پر ہی موجود رہے ہیں اور جنہیں عملی جامہ نہیں پہنا یا جا سکا ہے۔ بلاک اس سریع الحرکت 'جوائنٹ ریسپانس فورسز' کو 2025 تک آپریشنل بنانا چاہتا ہے۔
جرمن وزیر دفاع کرسٹینا لامبریشٹ نے اجلاس سے قبل صحافیوں کو بتایا کہ اس مقصد کے لیے ''جرمنی فوج کا اہم حصہ فراہم کر سکتا ہے۔''
لیتھوانیا کے وزیر خارجہ نے ٹویٹر پر لکھا کہ اس اقدام سے یورپی یونین کو ''نیٹو کے ساتھ ایک حقیقی جیو پولیٹیکل دفاعی اور سکیورٹی کھلاڑی'' بننے کے لیے ایک ''ضروری ٹول باکس'' حاصل ہو سکتا ہے۔
یورپی یونین اپنے سیکورٹی ڈھانچے کو تبدیل کیوں کر رہی ہے؟
یوروپی یونین کی سیکورٹی حکمت عملی پر نظر ثانی کا منصوبہ گزشتہ برس افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد اس وقت آیا، جب اگست میں طالبان نے آنا ًفاناً کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔
چونکہ یورپی یونین کے فوجی عسکری دستوں کبھی بھی تعیناتی ہی نہیں ہوئی اس لیے گروپ کے پاس ماضی میں فوجیوں کی کافی کمی کا سامنا رہا ہے۔ حالانکہ کاغذ پر کم سے کم 1500 فوجیوں پر مبنی دو یونٹوں کا تصور موجود ہے، جنہیں تعینات کرنے کے لیے ہمیشہ اسٹینڈ بائی پر رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔ تاہم حقیقتاً اس طرح کے فورسز فوری طور پر تیار نہیں ہیں۔
آسٹریا کی وزیر دفاع کلاؤڈیا ٹینر نے اس موقع پر کہا: ''ہمیں تیز طرار بننے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ایسے وقت جب ہمیں مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔''
یورپی یونین اور جرمنی میں دفاعی پالیسی کی حالت کیا ہے؟
گزشتہ چوبیس فروری کو روس نے یوکرین پر جس انداز سے حملہ کیا اس نے براعظم یورپ کے 27 ممالک کے بلاک کو اپنے سلامتی کے معاملے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یورپی یونین کی سکیورٹی کا بیشتر انحصار نیٹو اور رکن ممالک کے قومی فوجیوں پر رہا ہے۔
یورپی یونین اب ایک 'پرمانینٹ اسٹرکچرڈ کوآپریشن' تشکیل دینے کی کوشش کر رہی ہے جو پیسکو (پی ای ایس سی او) کے نام سے معروف ہے، حالانکہ یہ عملی طور پر ابھی تک کوئی زمینی طاقت نہیں ہے۔ یورپی یونین کے تمام رکن ممالک نیٹو کے رکن نہیں ہیں جبکہ پیسکو میں شامل بھی تقریباً ایک چوتھائی ارکان نیٹو کے رکن نہیں ہیں۔
پیسکو ابھی تک ایک زمینی فورس کی حیثیت سے کھڑا نہیں ہو پا یا ہے، تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیٹو میں اسے کیسے ضم کیا جائے۔ بحر حال یورپی یونین اپنے سکیورٹی کے مسائل کو اب کافی سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے اس برس جرمنی نے اپنے دفاعی بجٹ میں خاطر خواہ اضافے کا بھی اعلان کیا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)