یونان ریاستی دیوالیہ پن کے دہانے پر
15 جون 2011اس ادارے نے اب یونان کو مالیاتی حوالے سے اس کے قابل اعتبار ہونے سے متعلق جو درجہ دیا ہے، وہ اس وقت دنیا میں کسی بھی ملک کی سب سے خراب ریٹنگ کی نشاندہی کرتا ہے۔
یونان کی مالیاتی حالت کو بہتر بنانے کی ایک سال سے جاری کوششوں کا میزانیہ بڑا ناامید کر دینے والا ہے۔ ملک کی مالی صورت حال میں استحکام کے لیے ایتھنز حکومت کی بہت زیادہ بچت کی پالیسی بھی کافی ثابت نہیں ہوئی۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ سن 2010 کے لیے ملک کے سالانہ بجٹ میں خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے 10.5 فیصد تک پہنچ گیا۔ یہی نہیں یونان میں عوامی شعبے کے ذمہ قرضوں کی کل مالیت اس کی مجموعی قومی پیداوار کے 150 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف، یورپی یونین کے کمیشن اور یورپی مرکزی بینک کے مطابق ایتھنز حکومت اپنے مالیاتی استحکامی اہداف حاصل کرتی نظر نہیں آتی۔
اس صورت حال کے پیش نظر جرمنی میں بہت سے اقتصادی ماہرین اب یہ مطالبے کرنے لگے ہیں کہ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ یونان کے ذمہ قرضوں کی تشکیل نو کی جائے۔ اس کا دوسرے لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ یونان کا ریاستی سطح پر دیوالیہ ہو جانا تسلیم کر لیا جائے اور پھر قرضوں کی مالیت میں کمی کی کوششیں کی جائیں۔
جرمنی میں میکرو ریسرچ الائنس نامی اقتصادی ادارے کے سربراہ اور مشہور ماہر اقتصادیات رولف شنائڈر کہتے ہیں: ’’ایسا کرنے سے قرضوں کی مالیت میں تو کمی ہو جائےگی لیکن یونان کے لیے اثرات اور ممکنہ طور پر پورے یورپ کی مالیاتی منڈیوں کے لیے خطرات انتہائی شدید ہوں گے۔‘‘
ماہرین کو یہ بھی خدشہ ہے کہ یونان کے ریاستی طور پر دیوالیہ ہو جانے سے، پہلے ہی سے مالی مشکلات کے شکار یورو زون کے دیگر ملکوں پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ یہ ملک مالیاتی بے یقینی کے احساسات کے منفی اثرات سے بچ نہیں سکیں گے۔ ان ملکوں میں سے آئر لینڈ، پرتگال اور اسپین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
بہت سے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ یونان کے دیوالیہ ہو جانے کا تکنیکی فیصلہ کرنے کے بعد بہت سے بینک اپنی اربوں یورو کی رقوم سے حتمی طور پر محروم ہو جائیں گے۔ یہ صورتحال اس لیے اچھی نہیں ہو گی کہ یورپی بینکوں کی کارکردگی کا گزشتہ مالیاتی بحران کے بعد سے اب تک کا میزانیہ بھی بہت خوش کن نہیں ہے۔ جرمنی کے ڈوئچے بینک کے چیف اکانومسٹ ٹوماس مائر کہتے ہیں کہ یونان کے دیوالیہ ہو جانے کی صورت میں جنوبی یورپ کا یہ ملک یورپی اور بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں سے کئی برسوں کے لیے کٹ کر رہ جائے گا۔
ٹوماس مائر کہتے ہیں: ’’یونانی عوام کے لیے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ شاید 2025 تک، اور ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد بھی، یورپی مالیاتی منڈیوں میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔‘‘
ان دنوں یورپی یونین کے یورو زون میں یہ بحث بڑے زور و شور سے جاری ہے کہ یونان کی مالی مدد کے لیے اسے یورپی استحکامی پیکج کے تحت اب تک جتنی بھی رقوم مہیا کی جا چکی ہیں، ان کے باوجود اسے ہنگامی طور پر ایک اور بڑی مالیاتی کوشش کرتے ہوئے تقریباﹰ 60 بلین یورو مہیا کیے جانے چاہییں۔ اس تمام تر بے یقینی کے باعث یہ واضح نہیں ہے کہ آئندہ دنوں اور مہینوں میں یونان کی مالیاتی حالت کیسی ہو گی۔
رپورٹ: ڈان ہونگ ژانگ / مقبول ملک
ادارت: امتیاز احمد