یونیسکو کی رکنیت پر فلسطینیوں کو سزا
2 نومبر 2011گزشتہ روز اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے متنازعہ یہودی آباد کاری کے منصوبے میں توسیع کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے فلسطینی انتظامیہ کو محصولات کی مد میں ادائیگیاں نہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے پیرس میں رائے شماری کے بعد امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت کے باوجود فلسطین کو ایک ریاست کی حیثیت سے اپنا رکن بنایا۔
اس فیصلے کو یک طرفہ اور امن عمل کے منافی قرار دیتے ہوئے امریکہ یونیسکو کی مالی امداد روکنے کا اعلان پہلے ہی کر چکا ہے۔ اب اسرائیل نے بھی جوابی اقدامات کا اعلان کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اسرائیل کے ایک حکومتی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ یہودی آباد کاری کے سلسلے میں مزید دو ہزار مکانات کی تعمیر اور محصولات کی مد میں فلسطین کو ادائیگیاں روکنے کے فیصلے ایک سزا کے طور پر عمل میں لائے جائیں گے۔ اے ایف پی نے اس عہدیدار کا نام مخفی رکھتے ہوئے اس کے حوالے سے بتایا، ’’ہم مزید دو ہزار مکانات تعمیر کریں گے۔ ان میں سے 1650 مکانات مشرقی یروشلم میں اور دیگر مالیہ ادومم اور ایفراط نامی علاقوں میں تعمیر کیے جائیں گے۔‘‘ مالیہ ادومم کا علاقہ یروشلم کے مشرقی حصے میں جبکہ ایفراط کا علاقہ بیت الیہم اور جنوبی شہر ہیبرون کے درمیان واقع ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی حکومت ہر ماہ محصولات کی مد میں فلسطینی انتظامیہ کو کئی ملین ڈالر ادا کرتی ہے۔ یہ وہ رقم ہے جو اسرائیل کی زیر انتظام بندرگاہوں کے راستے فلسطینی علاقوں میں جانے والی اشیاء پر کسٹم اور دیگر ڈیوٹیوں کی مد میں اسرائیلی اہلکار وصول کرتے ہیں۔ ماضی میں بھی اسرائیلی حکومت اسے فلسطینی انتظامیہ پر سفارتی دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق یہ اقدامات یونیسکو کے فیصلے کے ردعمل میں اٹھائے گئے اولین اقدامات ہیں، مستقبل میں مزید بھی اٹھائے جائیں گے۔ فلسطینی انتظامیہ کے صدر محود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودائینا نے ان اسرائیلی اقدامات کی سختی سے مذمت کی ہے۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے کوششیں کرنے والے چہار فریقی گروپ اور امریکہ پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے اس طرز عمل کا راستہ روکے، جو ان کے بقول خطے کے لیے منفی نتائج کے حامل ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: شامل شمس