یوکرائن میں بے قاعدہ فورسز ہتھیار ڈال دیں، اوباما
15 اپریل 2014اس موقع پر یوکرائن کے روس نواز علیحدگی پسندوں کا معاملہ زیر بحث آیا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ ٹیلی فونک رابطہ روس کی درخواست پر ہوا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق اوباما نے الزام عائد کیا کہ ماسکو حکومت روس نواز مسلح علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے جو یوکرائن کی حکومت کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
اعلیٰ امریکی حکام کو خطرہ ہے کہ یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں سرکاری عمارتوں پر قابض علیحدگی پسند کریمیا جیسے نتائج کی اُمید میں ایسی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
ماسکو حکومت کے مطابق صدر ولادیمیر پوٹن نے صدر اوباما کے ساتھ ٹیلی فونک بات چیت میں امریکی الزامات کو بے بنیاد قرار دیا کہ روس یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں مداخلت کر رہا ہے۔
اوباما نے پوٹن کو بتایا کہ یوکرائن میں موجود تمام بے قاعدہ فورسز کو ہتھیار ڈالنے ہوں گے۔ انہوں نے پوٹن پر زور دیا کہ وہ ان مسلح روس نواز گروپوں سے سرکاری عمارتوں کا قبضہ چھڑوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔
وائٹ ہاؤس نے اس بات کی تصدیق بھی کی ہے کہ سی آئی اے کے سربراہ جان برینن نے ویک اینڈ پر کییف کا دورہ کیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا کی جانب سے اس دورے کی تصدیق حیرت انگیز ہے۔ اس سے پہلے روس کے وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے برینن کے اس دورے پر امریکا سے وضاحت طلب کی تھی۔
روس کے خبر رساں ادارے انٹرفیکس نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ برینن نے اپنے دورے کے موقع پر کییف حکام کو روس نواز شدت پسندوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی تجویز دی تھی۔
تاہم وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے ان دعووں کو ردّ کرتے ہوئے کہا کہ برینن کا دورہ معمول کی ایک کارروائی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ برینن کے دورے کی تصدیق روس کے ’جھوٹے دعووں‘ کو ردّ کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ زمانہ سرد جنگ کے بعد انٹیلیجنس حکام اکثر روس میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں اور برینن کے دورے کو اس سے مختلف قرار دینا نامعقول بات ہے۔ کارنی نے اس تاثر کو بھی مسترد کر دیا کہ امریکا اور روس کے درمیان ایک نئی سرد جنگ شروع ہونے جا رہی ہے۔