’یہ کیسی آزادی ہے ؟‘
9 اپریل 2018سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی بے پناہ تصاویر نے ظاہر کیا کہ یہ تحریک گزشتہ روز پشاور میں کافی افراد کو جمع کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق،’’ خیبر پختونخواہ اور فاٹا سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے پشاور کی رنگ روڈ کے قریب ایک بڑے جلسے میں شرکت کی جہاں انہوں نے دا سنگ آزادی دا (یہ کیسی آزادی ہے) کے نعرے لگائے۔
مجمع سے خطاب کرتے ہوئے تحریک کے رہنما منظور پشتین نے کہا،’’ ہم صرف ظالموں کے خلاف ہیں، ہم اپنی قوم کے ’ایجنٹ‘ ہیں۔‘‘ اس جسلے میں شریک کئی افراد نے سوشل میڈیا پر بے تحاشہ تصاویر اور ویڈیوز بھی شیئر کیں۔ سماجی کارکن اور اس موومنٹ کا حصہ گلالئی اسماعیل نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا،’’ پشتون لانگ مارچ کا شمار سب سے بڑے سیاسی جلسوں میں ہوتا ہے۔ یہ خالصتاً عام لوگوں کی تحریک ہے جسے پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے مکمل طور پر سینسر کر دیا ہے۔‘‘
’حکومت گمشدہ افراد کی جلد بازیابی ممکن بنائے‘
پاکستان میں گمشدہ افرادکا مسئلہ تمام صوبوں تک پھیل گیا
واضح رہے کہ سیاسی مبصرین کی رائے میں پاکستان کے مرکزی نیوز چینلز نے پشتون تحفظ موومنٹ پر رپورٹنگ نہیں کی۔ اس حوالے سے پاکستانی صحافی امبر رحیم شمسی نے ایک ٹویٹ میں لکھا،’’پشاور میں پشتون لانگ مارچ کو نظر انداز کر کے پاکستانی میڈیا نے تاریخ کو غلط مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں مقامی ٹی وی چینلز فیل ہوئے ہیں وہیں بین الاقوامی میڈیا ور سوشل میڈیا اس خلا کو پر کر رہا ہے۔‘‘
اس جلسے میں ایسی خواتین اور مرد بھی شامل تھے جنہوں نے اپنے گمشدہ بچوں کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔ گلا لئی نے چند ایسی خواتین کی تصاویر اپنے فیس بک پر شیئر کرتے ہوئے لکھا،’’ مائیں اپنے ان بچوں کی تصویریں لے کر جلسے میں آئیں تھی جو ان سے اس ریاست نے چرائے ہیں، یہ گمشدہ بیٹوں کی تصویریں نہیں ہیں، گمشدہ تو تب ہوتے کہ اگر معلوم نہ ہوتا، یہ بیٹے تو ریاست کے معلوم اداروں نے اپنا کاروبار چلانے کے لیے ان ماؤں سے چرائے ہیں-‘‘
پشتون تحفظ موومنٹ پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے لکھا،’’ پشتون تحفظ موومنٹ نے ایک اور زبردست مظاہرہ کیا ہے۔ آپ بے شک ان کی تمام باتوں سے اتفاق نہ کریں لیکن ان کی بات سنیں تو صحیح۔ اگر پاکستان کا مرکزی دھارا نوجوان پاکستانیوں کی باتوں کو نظر انداز کرے گا تو وہ دیوار سے لگنے پر مجبور ہو جائیں گے۔‘‘