104 سال کی عمر میں رضاکارانہ موت کا انتخاب، تنقید کی زد میں
5 مئی 2018سوئٹزرلینڈ ایک ایسا واحد ملک ہے، جہاں انتہائی علیل، ذہنی و جسمانی طور پر معذور افراد کو سہل مرگی فراہم کی جاتی ہے۔ اسی ملک میں طویل العمر لاغر بوڑھے افراد کو بھی یہ سہولت فراہم کی جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر لیں۔ ان میں سوئس شہر بازل کا کلینگ ’ایٹرنل اسپرٹ‘ یا ’ابدی روح‘ نہایت اہم تصور کیا جاتا ہے۔
آسٹریلیا کے مشہور ماہر نباتات اور ایکلوجسٹ ڈاکٹر ڈیوڈ گُوڈال کو اسی کلینک میں دس مئی کو ایک انجیکشن لگا کر ابدی نیند سلا دیا جائے گا۔ ڈاکٹر گُوڈال نے آسٹریلین براڈکاسنٹگ کارپوریشن کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ وہ سوئٹزرلینڈ جانے کی خواہش قطعاً نہیں رکھتے تھے، لیکن آسٹریلین نظام میں رضاکارانہ طور پر موت اپنانے کی سہولت کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ سفر کرنا پڑ رہا ہے۔
بھارت میں غیرفعال سہل مرگی کی عدالتی اجازت
لاعلاج مرض، موت یقینی مگر امید قائم
بھارت، گائے کی رکشا کا نیا انداز ’موت‘
’ایٹرنل اسپرٹ‘ کے بانی افراد میں سے ایک رُوئڈی ہابیگر نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ’بقائمی ہوش و حواس چلتے پھرتے آسٹریلوی سائنسدان کی جانب سے ایسی موت قبول کرنے کو ایک ظالمانہ فعل‘ قرار دیا ہے۔ ہابیگر کے مطابق ڈاکٹر گُوڈال کو اپنے ملک میں ہی بستر پر اپنی موت کا انتظار ایسے ہی کرنا چاہیے تھا، جیسے سوئٹزرلینڈ کے بوڑھے کرتے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ کئی ممالک نے خودکشی کے عمل میں معاونت کرنے کو قانونی اور جائز قرار دے رکھا ہے۔ آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا کی پارلیمان نے بھی ایسا قانون منظور کر لیا ہے، لیکن اُس پر عمل اگلے برس جون سے ہو گا اور وہ بھی اُن افراد پر جو شدید علیل ہونے کی وجہ سے محض مزید چھ ماہ زندہ رہنے کے قابل ہوں گے۔ آسٹریلوی شہر پرتھ کی ایڈیتھ کوون یونیورسٹی سے اعزازی طور پر منسلک ڈاکٹر ڈیوڈ گُوڈال اُس وقت کا انتظار نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر ڈیوڈ گوڈال اب آسٹریلیا سے اپنے ابدی سفر کے پہلے مرحلے پر فرانس پہنچ چکے ہیں۔ وہ فرانس میں اپنے بیٹے اور بقیہ اہلِ خانہ کے ساتھ کچھ وقت گزاریں گے۔ اس کے بعد وہ اگلے ہفتے کے دوران کسی وقت سوئٹزر لینڈ کے شہر بازل کے نواح میں واقع کلینک ’ایٹرنل اسپرٹ‘ منتقل ہو جائیں گے۔ اسی کلینگ پر اگلی جمعرات کو وہ طبی معاونت کے ذریعے ہمیشہ کے لیے موت کو گلے لگا لیں گے۔
ایٹرنل اسپرٹ کے بانی رکن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک صحت مند شخص اُن کے کلینک میں داخل ہو کر سہل مرگی کا مطالبہ کرے تو اُس کے مطالبے پر عمل کرنا مشکل ہو گا۔ اُن کا اشارہ کلینک کے معالجین کی جانب تھا، جو کسی صحت مند شخص کو موت کی فراہمی میں پس و پیش یا انکار بھی کر سکتے ہیں۔
ہابیگر کے مطابق کلینک میں سہل مرگی یا رضاکارنہ موت اپنانے والے شخص کے آخری وقت کو ویڈیو کیمرے پر ریکارڈ بھی کیا جاتا ہے اور اس ویڈیو میں اُس شخص کا نام، تاریخ پیدائش اور رضاکارانہ موت کے انتخاب کی وجوہات بھی بیان کی جاتی ہیں۔ یہ ریکارڈنگ ’موت کا انجیکشن‘ لگانے تک جاری رہتی ہےاور انجیکشن لگانے کے فوری بعد اس ریکارڈنگ کو روک دیا جاتا ہے کیونکہ موت کا سفر انتہائی ذاتی قرار دیا گیا ہے۔
ہابیگر کے مطابق انجیکشن لگانے کے بیس سے تیس سیکنڈ میں سہل مرگی کے شخص پر انتہائی گہری نیند طاری ہو جاتی ہے اور پھر اُس کا دل بغیر کسی تکلیف کے دھڑکنا بند کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سارے عمل کو ایک سے ڈیڑھ منٹ درکار ہے جو بغیر کسی تکلیف کے مکمل ہو جاتا ہے۔
اب تک سوئٹزرلینڈ کے کلینک ’ایٹرنل اسپرٹ‘ میں 80 افراد نے رضاکارنہ موت یعنی AVD ( Assisted Voluntary Death) یا سہل مرگی کو اپنایا ہے۔ ان میں بیشتر شدید علیل اور کرب کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس کلینک پر سہل مرگی اختیار کرنے والوں کی اوسط عمر 76 برس بتائی گئی ہے۔ سہل مرگی پانے والے اب تک کا طویل عمر کا شخص 99 برس کا تھا اور کم عمر 32 برس کا نوجوان تھا۔ اگلے ہفتے سب سے طویل عمر پانے والے شخص ڈاکٹر گُوڈال بن جائیں گے کیونکہ اُن کی عمر 104 برس ہے۔
ع ح ⁄ ش ح ⁄ اے ایف پی