’20 لاکھ کا نشانہ پار، غائب ہے مودی سرکار‘
7 اگست 2020دوسری طرف ملک بھر کے دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کی خدمات کی فراہمی میں مدد کرنے والی چھ لاکھ رجسٹرڈ خواتین ہیلتھ ورکرز ہڑتال پر چلی گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے کورونا وائرس کی روک تھام کے علاوہ دیگر لازمی طبی خدمات کے بڑے پیمانے پر متاثر ہونے کا خدشہ لاحق ہوگیا ہے۔
بھارتی وزارت صحت کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے 24 گھنٹے میں 62538 نئے کیسز سامنے آئے۔ جس کے ساتھ ہی کورونا سے متاثرین کی تعداد 20 لاکھ 30 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔ دوسری طرف اس دوران 886 افراد کی موت ہوگئی جس کے ساتھ ہی بھارت میں کووڈ 19 سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد 41673 ہوگئی ہے۔
کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے حکومت نے25مارچ کو ملک گیر لاک ڈاون کا اعلان کیا تھا تاہم بعد میں اس میں نرمی کر دی گئی تھی لیکن اس کی وجہ سے اس وبا کے پھیلنے کی رفتار کافی تیز ہوگئی ہے۔ ملک میں ایک لاکھ سے بڑھ کر پانچ لاکھ کیسز ہونے میں جہاں 39 دن لگے تھے وہیں پانچ لاکھ سے بڑھ کر دس لاکھ کیسز ہونے میں 20 دن لگے۔ دس لاکھ سے بڑھ کر 15 لاکھ ہونے میں صرف 12 دن لگے اور 15 لاکھ سے 20 لاکھ کیسز محض نو دنوں میں پہنچ گئے۔
دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں کی فہرست میں امریکا اور برازیل کے بعد بھارت تیسرے نمبر پر ہے لیکن روزانہ سب سے زیادہ نئے کیسز کے لحاظ سے یہ امریکا اور برازیل کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
اپوزیشن کا حملہ
کورونا وائرس کے کیسز میں مسلسل اضافہ کے درمیان اپوزیشن کانگریس نے مودی حکومت پر ایک بار پھر حملہ کیا ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے مودی حکومت پر طنز کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا، ”20 لاکھ کا نشانہ پار، غائب ہے مودی سرکار"۔
راہول گاندھی نے اسی کے ساتھ 17 جولائی کو کیے گئے اپنے ایک پرانے ٹوئٹ کو بھی شیئر کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 10 اگست تک ملک میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 20 لاکھ پہنچ جائے گی۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں مزید کہا تھا کہ حکومت کواس وبا کو روکنے کے لیے ٹھوس اور مضبوط قدم اٹھانے چاہئیں۔
چھ لاکھ ہیلتھ ورکر ہڑتال پر
دریں اثناء ملک میں دس لاکھ خواتین ہیلتھ ورکروں میں سے چھ لاکھ خواتین کم اجرت، انفیکشن سے تحفظ کے فقدان، تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور دیگر مسائل کے حل پر زور دینے کے لیے جمعہ 7 اگست سے دو روزہ ہڑتال پر چلی گئی ہیں۔
ان خواتین ہیلتھ ورکروں کو 'آشا‘ (امید) ورکر کہا جاتا ہے جو دراصل ایکریڈیٹیڈ سوشل ہیلتھ ایکٹیوسٹ کا مخفف ہے۔ انہیں سن 2005 میں 'قومی دیہی صحت مشن‘ کے تحت اس مقصد سے مقرر کیا گیا تھا کہ دیہی علاقوں میں گھروں میں آسانی سے جاکر خواتین کو درپیش صحت کے مسائل کا پتا لگاسکتی ہیں اور انہیں مشورے دے سکتی ہیں۔ ابتدا میں ان سے روزانہ صرف دو گھنٹے کام کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن اب عملاً انہیں دس گھنٹے تک کام کرنا پڑ رہا ہے اور اس کے بدلے میں انہیں صرف معمولی اعزازیہ دیا جاتا ہے۔
مہاراشٹر کے جلگاؤں ضلعے کی 45 سالہ آشا کارکن سلوچنا سبدے کہتی ہیں، ''صبح سات بجے سے شام پانچ بجے تک کام کرنے کے بدلے میں انہیں مہینے میں صرف 2000 ہزار روپے(تقریباً 27 ڈالر) ملتے ہیں۔ انہیں نہ تو کوئی ماسک دیا گیا ہے اور نہ ہی سنیٹائزر۔" سلوچنا کہتی ہیں کہ حکومت نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ کورونا کی روک تھام کے لیے کام کرنے کے بدلے میں 2000 روپے اضافی دیے جائیں گے لیکن اضافی رقم تو دور اصل تنخواہ بھی کبھی وقت پر نہیں ملی۔ وہ کہتی ہیں ”حکومت کو ہم لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔"
سائرہ انور شیخ مہاراشٹر میں آشا کارکن کے طور پر کام کرتی تھیں۔ حکومت نے انہیں ماسک اور دستانے تو دیے لیکن کوئی اور حفاظتی پوشاک فراہم نہیں کی۔ جس کے نتیجے میں کورونا کی وجہ سے یکم جون کو ان کی موت ہوگئی۔ سائرہ کے شوہر انور شیخ احمد کہتے ہیں ”میری بیوی نے اپنی زندگی کے گیارہ برس اس کام میں لگا دیے لیکن حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملی۔"
مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق صرف مہاراشٹر میں کورونا کی وجہ سے 20 آشاکارکنوں کی موت ہوچکی ہے۔
بھارتی صوبے پنجاب میں بلبیر کور نامی آشا کارکن کہتی ہیں کہ انہیں مئی میں ماسک اور سینٹائزر ملے تھے۔اس کے بعد سے اب اپنے پیسے سے ہی یہ چیزیں خریدنی پڑ رہی ہیں کیوں کہ بتایا گیا کہ سرکاری اسٹاک ختم ہوگیا ہے۔ بلبیر کور کہتی ہیں کہ کورونا وبا شروع ہونے سے پہلے انہیں روزانہ سات گھروں میں جانا پڑتا تھا لیکن اب 25 گھروں میں جانا پڑ رہا ہے۔
حکومت کا تاہم کہنا ہے کہ آشا ورکروں کے لیے ضروری فنڈز تقسیم کر دیے گیے ہیں۔ وفاقی وزارت صحت کے جوائنٹ سیکرٹری وکاش شیل کا کہنا تھا،”وزارت صحت نے کووِڈ 19 کے لیے اضافی رقم سمیت آشا کے لیے فنڈ تقسیم کردیے ہیں۔ لیکن مقامی سطح پر کچھ مسائل ہوسکتے ہیں۔"