81 سالہ یہودی خاتون کو لاہور میں کس چیز کی تلاش ہے؟
22 فروری 2020پاکستان کے دوسرے بڑے شہرلاہور میں تین روزہ لاہور لٹریچر فیسٹیول جاری ہے۔ پاکستان اور بیرون ملک سے آنے والے لکھاریوں، دانشوروں، ادیبوں، مؤرخوں اور آرٹسٹوں کی بہت بڑی تعداد اس میلے میں شریک ہے۔ لاہور کے الحمرا آرٹس سنٹر میں ہونے والے اس میلے کے مختلف سیشنز میں آرٹ اور ادب کے علاوہ تاریخی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی موضوعات پر بھی بات ہو رہی ہے۔
آج ہفتہ 22 فروری کو یہاں ہونے والا ایک دلچسپ سیشن ایک ایسے یہودی خاندان کی لاہور کے بارے میں یادوں کو لیے ہوئے تھا جسے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد عوامی دباؤ کی وجہ سے پاکستان چھوڑنا پڑا تھا۔
نیویارک سے آنے والی 81 سالہ یہودی خاتون ہیزل کاہان جب لاہور کے ساتھ اپنی یادوں بھری وابستگی کی کہانی سنا رہی تھی تو اس وقت الحمرا آرٹس سنٹر کا ہال نمبر تین لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور لوگ ہال کے باہر بھی موجود تھے۔ سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی کرنے والی ہیزل آج کل امریکا میں مقیم ہیں اور وہاں کے ایک ریڈیو میں نیوز ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔
ہیزل نے بتایا کہ ان کی والدہ جرمن تھیں اور ان کے والد کا تعلق پولینڈ سے تھا۔ ان کے بقول ہٹلر کے دور میں ان کے والدین کو میڈیکل کی تعلیم کے حصول کے لیے اٹلی جانا پڑا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کے والدین میڈیکل کی پریکٹس کے لیے برٹش انڈیا آگئے۔ کلکتہ، ممبئی، دہلی سمیت کئی علاقے گھومنے کے بعد جب وہ لاہور پہنچے تو اسی شہر کو اپنا مسکن بنانے کا فیصلہ کیا۔
یہ خاندان لاہور کے علاقے لارنس روڈ کے 55 نمبر بنگلے میں رہتا تھا۔ اس سرسبز اور کشادہ گھر میں گزرے دنوں کے واقعات ہیزل کو اب بھی یاد ہیں۔ ہیزل نے اسی گھر میں جنم لیا، ان کے بچپن اور جواں عمری کے زمانے یہیں گزرے۔ وہ پڑھنے کشمیر، بھارت اور برطانیہ گئیں تو بھی لوٹ کر لاہور میں اپنے گھر میں واپس آئیں۔ لاہور شہر کے ساتھ ان کی 33 سالوں کی وابستگی کافی گہری ہے۔
ہیزل کے والد پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے، اور وہ ڈاکٹر اقبال نامی ایک پاکستانی فزیشن کے ساتھ مل کر پریکٹس کر رہے تھے۔ تقسیم سے بہت پہلے پولینڈ کی شہریت ختم ہو جانے کی وجہ سے انگریز حکومت نے انہیں گرفتار کر کے ساڑھے پانچ سال کے لیے قیدیوں کے ایک کیمپ میں بھیج دیا۔ 1946ء میں رہائی کے بعد ہیزل کے والد نے اپنی لاہور والی میڈیکل پریکٹس پھرشروع کی اور جب وہ بہت بہتر ہوئی تو وہ یہ گھر چھوڑ کر گلبرگ فائیو کے 13 نمبر بنگلے میں شفٹ ہو گئے۔
ہیزل بتاتی ہیں کہ ان کے خاندان کو لاہور کے سماجی حلقوں میں بہت عزت اور اثر رسوخ حاصل تھا۔ لیکن 1967ء میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ کے بعد حالات بدل گئے۔ رائے عامہ یہودیوں کے خلاف ہوگئی۔ لوگ ان پر شک کرنے لگے۔ سماجی دباؤ بڑھا تو ہیزل کے والدین پاکستان کے ان شمالی علاقوں میں جا کر ایک موبائل کلینک چلانے لگے جہاں طبی سہولیات موجود نہیں تھیں۔ کچھ ہی عرصے کے بعد انہیں وہاں سے بھی جانا پڑا اور وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
پاکستان سے چلے جانے کے بعد بھی ہیزل کا دل لاہور شہر کی یادوں سے آباد رہا۔ 2011ء میں انہوں نے واپس اپنے گھر آنے کا فیصلہ کیا۔ 40 سال بعد 2011ء میں جب وہ اپنے گھر پہنچیں تو گھر کی عمارت تو موجود تھی لیکن گھر کی ہریالی اور سبزے میں کمی آ چکی تھی۔ لارنس روڈ کے 55 نمبر گھر میں رہائش پذیر روکڑی خاندان نے ہیزل کو خوش آمدید کہا۔ ہیزل اپنے بیڈ روم میں گئیں، اس گھر کی راہداریوں اور برآمدوں میں پھریں اور انہوں نے اپنے ماضی کو یاد کیا۔ گلبرگ والے گھر کے نئے مالک کاظم نے ہیزل سے کہا ہے کہ وہ اس گھر کو اب بھی اپنا ہی گھر سمجھیں۔ ہیزل گھر کے نئے مکینوں کے ہمدردانہ رویوں سے بہت متاثر ہوئیں۔
ہیزل ایک امریکی ریڈیو میں اپنے پروگرام میں اپنے سننے والوں کو لارنس روڈ پر واقع اپنے آبائی گھر میں رونما ہونے والے واقعات کے قصے سناتی ہیں۔ وہ اس مکان کی یادوں پر مبنی ایک کتاب A HOUSE IN LAHORE بھی لکھ رہی ہیں جو اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گی۔ لاہور لٹریچر فیسٹیول کے سیشن کے بعد ڈی ڈبلیو سے گفتگوکرتے ہوئے ہیزل کا کہنا تھا، ’’مجھے لگتا ہے کہ میرا لاہور والا گھر مجھے بلاتا ہے۔ 2011ء کے بعد سے یہ میرا چوتھا وزٹ ہے۔ مجھے لاہور کی آوازیں، لاہور کا شور، لاہور کے کھابے اور سب سے بڑھ کر لاہور کے لوگ بہت پسند ہیں۔ یہاں ان لوگوں کی اولادیں بھی موجود ہیں جن کے والدین کا علاج میرے باپ نے کیا تھا۔ میں یہاں نہیں رہتی مگر مجھے یہاں آکر ہمیشہ اپنائیت کا احساس ملتا ہے۔ میں جلد دوبارہ بھی یہاں آنے کی کوشش کروں گی۔‘‘
ہیزل آج کل اسی آبائی گھر میں ٹھہری ہوئی ہیں۔ ان کے اس دور کے ملازمین کے بچے ان سے ملنے آتے ہیں تو ان سے باتیں کرتے ہوئے بھی وہ ایک دفعہ پھر اپنے بچپن میں لوٹ جاتی ہیں۔
پاکستان کے ممتاز ماہر تعمیرات نیر علی دادا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اینٹوں سے بنے ہوئے مکان میں جب انسانی جذبات ملتے ہیں تو یہ گھر بن جاتا ہے، اور یہاں گذری ہوئی یادیں، ان کے مکینوں کے لیے ایسے گھروں کو جنت نظیر بنا دیتی ہیں کچھ ایسا ہی ہیزل کے ساتھ معاملہ ہے۔‘‘
عالیہ نصیر فاروق ایک ماہر تعلیم اور لکھاری ہیں۔ انہوں نے اپنی زیر طبع کتاب ’ہیئر از لاہور‘ میں جن چھ خواتین کی کہانی بیان کی ہے اس میں ہیزل کی داستان بھی شامل ہے۔ عالیہ کے بقول ان خواتین کی مٹی سے محبت کے قصے نوجوان نسل کو سنائے جانے کے قابل ہیں۔