71 ء کے جنگی جرائم کا مقدمہ: وکلاء اور گواہوں کو ہراساں کرنے کی کوششیں
3 نومبر 2011بنگلہ دیش میں ملک کی آزادی کے وقت یعنی سن 1971 میں ہونے والی جنگ کے دوران جنگی جرائم میں شریک مشتبہ افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت وزیر اعظم حسینہ واجد کا قائم کردہ ایک ٹریبیونل کرے گا۔ اس سلسلے میں پہلی عدالتی کارروائی بیس نومبرسے شروع ہو رہی ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام نے یہ جنگ پاکستانی فوج کے خلاف لڑی تھی۔
انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (HRW) کے مطابق عدالتی کارروائی جن مشتبہ افراد کے خلاف کی جائے گی،، ان کے وکلائے دفاع کو ڈرانے دھمکانے کا عمل شروع ہے اور اس باعث یہ کارروائی ابھی سے شفافیت سے محروم دکھائی دیتی ہے۔ امریکی شہر نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے ڈھاکہ حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ ان مقدمات میں غیر جانبداری دکھانے کی خواہش رکھتی ہے تووکلاء اور گواہان کو دی جانے والی دھمکیوں اور انہیں ہراساں کرنے یا ذہنی تشدد کے سلسلے کو یقینی طور پر بند کیا جائے۔
مقامی ذرائع کی اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیش کی مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے دلاور حسین سیّدی کے وکلاء کو مسلسل ہراساں اور ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ دلاور حسین سیدی کے ایک وکیل کو جھوٹے مقدمے کے تحت گرفتار کرنے کی دھمکی دی جا چکی ہے جب کہ دوسرے وکیل کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کے مقامی کارکنوں کے مطابق اس عدالتی کارروائی کے جواب میں سن 1971 کے واقعات کی ریسرچ کرنے والا ایک محقق اپنی جان بچانے کی کوشش میں کسی خفیہ مقام پر چھپنے پر مجبور ہو چکا ہے۔
ان واقعات کے جواب میں بنگلہ دیشی اٹارنی جنرل محبوب عالم کا کہنا ہے کہ یہ سب من گھڑت اور مبالغہ امیزی پر مبنی بیانات ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے دلاور حسین سیدی کو بیس الزامات کا سامنا ہے۔ ان کے ساتھ چار اور افراد بھی ایسے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان چار افراد میں سے دو کا تعلق جماعت اسلامی اور دو مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیس نیشنلسٹ پارٹی سے ہے۔ دونوں ہی پارٹیوں نے حکومت کے قائم کردہ اس ٹریبیونل کو دکھاوا قرار دیا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: مقبول ملک