بنگلہ دیش میں سینڈ بلاسٹنگ جینز پر تنقید
11 اکتوبر 2011سینڈ بلاسٹنگ کے ذریعے دراصل نئی جینز کو ایسے (پرانے) رُوپ میں ڈھالا جاتا ہے، جو گزشتہ کئی برسوں میں دنیا بھر میں مقبول ہے۔ تاہم بنگلہ دیش کی سستی لیبر انڈسٹری کو اس طریقہ کار کے استعمال پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اس طریقے کے ذریعے ریت زوردار پریشر سے جینز پر پھینکی جاتی ہے۔
اس کے خطرناک اثرات کا اندازہ سمن ہاؤلادیر کی کہانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اسے جب جینز کی فیکٹری میں نوکری ملی تو وہ ہواؤں میں تھا۔ تاہم اب اسے یقین ہے کہ اپنی صحت کو خطرے میں ڈال کر اس نے اس نوکری کی بھاری قیمت چکائی ہے۔
اس نے سینڈ بلاسٹنگ کی فیکٹری میں تین سال کام کیا، جس کے بعد اسے خون کی ابکائیاں آنا شروع ہوئیں۔ اس پر کھانسی کے شدید دورے پڑنے لگے جبکہ سانس لینے میں بھی مشکل پیش آنے لگی۔ تب اسے ڈھاکہ میں سانس کی بیماری سے متعلق ایک ہسپتال میں علاج کے لیے داخل کرایا گیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ورکر گروپوں کے حوالے سے کہا ہے کہ ہاؤلادیر اور اس جیسے بہت سے مزدوروں کی بیماری کی درست تشخیص نہیں کی گئی۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ ٹی بی میں مبتلا ہیں جبکہ اصل میں وہ سیلیکوسس کا شکار ہیں، جو انتہائی خطرناک مرض ہے۔
ہاؤلادیر نے اے ایف پی کو بتایا: ’’ایک روز جب میں کام کر رہا تھا، تو میرے منہ اور ناک سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ اس کام میں کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن مسلسل سینڈ بلاسٹنگ کی وجہ سے کمرہ ریت اور گَرد سے بھر جاتا تھا، جس کے نتیجے میں ذرات سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہو جاتے تھے۔‘‘
جینز کی تیاری کے لیے سینڈ بلاسٹنگ کے طریقہ کار پر یورپ اور امریکہ میں عرصے سے پابندی ہے۔ تاہم بنگلہ دیش میں کپڑوں کے معروف برانڈز کی مصنوعات کے لیے یہ طریقہ ابھی تک استعمال ہوتا ہے۔
گوچی، لیوائز، ایچ اینڈ ایم اور گیپ جیسے بین الاقوامی برانڈز سینڈ بلاسٹڈ مصنوعات کی فروخت بند کرنے کا اظہار کر چکے ہیں جبکہ ڈولچے اینڈ گبانا کو ایسے ہی اقدام کے لیے انٹرنیٹ پر چلائی جانے والی ایک مہم کا سامنا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / اے ایف پی
ادارت: امجد علی