9/11 کے نو سال اور افغانوں کی ٹمٹماتی امیدیں
11 ستمبر 2010امریکہ کی نظر میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اُس کے حلیف طالبان اِس حملے کے ذمہ دار تھے۔ کچھ ہی عرصے بعد طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ تب افغان عوام کے دلوں میں بیس سال سے زیادہ عرصے کی جنگوں اور خانہ جنگی کے بعد پہلی مرتبہ ایک بہتر زندگی کی امید کے چراغ روشن ہوئے تھے۔
طالبان کے لئے گیارہ ستمبر 2001ء کا دن خوشی کا دن تھا۔ اپنے پراپیگنڈہ کے ذرائع کی مدد سے اُنہوں نے یہ بیان جاری کیا کہ امریکہ پر، جو کہ طالبان کی نظر میں اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا، خدا کی طرف سے عذاب نازل ہوا ہے۔ افغانستان میں امریکی فوجی دَستوں کے ابتدائی حملوں کے بعد طالبان نے اپنے عوام کے خلاف جبر و تشدد میں مزید اضافہ کر دیا۔
کابل کا ایک شہری عتیق اللہ، جو اُس زمانے میں بیس سال کا تھا، اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتاتا ہے:’’طالبان کے دَورِ حکومت کے آخری دن خاص طور پر خوفناک تھے۔ لوگوں کو کسی عدالتی کارروائی کے بغیر ہی اور بہت ہی مضحکہ خیز الزامات کے تحت گولی مار دی جاتی تھی۔ مَیں نے خود دیکھا کہ کیسے سڑکوں پر بہت سے لوگوں کو گولی سے اڑا دیا گیا۔‘‘
2001ء کے اواخر میں امریکہ کی فوجی مداخلت کے نتیجے میں طالبان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ کابل کی نئی حکومت اور اُس کے بین الاقوامی حلیفوں نے افغان عوام کے ساتھ بہت سے وعدے کئے، خاص طور پر سلامتی، خوشحالی اور جمہوریت کے حوالے سے۔ یہ اصطلاحات افغانستان کی بالخصوص نوجوان نسل کے لئے بالکل ہی اجنبی تھیں تاہم اِنہوں نے افغانوں کو ایک بہتر زندگی کی امید اور حوصلے سے آشنا کیا۔ لیکن پچیس سالہ مختار آج بھی اُس بہتر زندگی کا انتظار ہی کر رہا ہے:’’یہ بات تو طے ہے کہ دَس سال پہلے کے مقابلے میں آج افغان معیشت بہتر حالت میں ہے لیکن زیادہ تر لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جانے کیوں ان تمام وعدوں میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں کیا گیا۔ دیگر مقامات کو تو چھوڑیں، لوگ خود کو کابل کے اندر بھی محفوظ تصور نہیں کر سکتے۔‘‘
بلاشبہ گیارہ سمتر کے دہشت پسندانہ واقعات کے نو سال بعد والا افغانستان سلامتی، خوشحالی اور جمہوریت سے بہت دور ہے۔ طالبان، جن کے بارے میں سوچا گیا تھا کہ اُنہیں شکست ہو چکی ہے، وہ 2006ء سے بتدریج طاقتور ہوتے گئے ہیں۔ بہت سے افغان آج کل بس ایک خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اُن کے ملک میں جنگ ختم ہو جائے۔ خوشحالی اور جمہوریت کی بات کوئی کم ہی کرتا ہے۔
کابل یونیورسٹی کے داخلہ سیاست کے ماہر فاروق بشر ملک کی ابتر صورتِ حال کے پیشِ نظر اِس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ لوگ حامد کرزئی اور اُن کے بین الاقوامی ساتھیوں سے بالکل ہی منہ موڑ لیں گے:’’مَیں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ مایوسیاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ لوگوں کا اعتبار اِس بات پر سے اٹھتا جا رہا ہے کہ اُن کی حکومت اور بین الاقوامی فوجی دَستے سلامتی کے مسائل کو حل کر سکیں گے۔ اُنہیں اپنے اِس سوال کا جواب نہیں مل رہا ہے کہ آخر اتنے بہت سے ممالک مل کر بھی افغانستان میں سلامتی کے مسائل کو حل کیوں نہیں کر پا رہے؟‘‘
طالبان کے پاس اِس طرح کے سوالات کے سیدھے سیدھے جواب ہیں۔ طالبان کا پراپیگنڈہ ہے کہ بین الاقوامی برادری افغان عوام کی حالت بہتر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ وہ پورے ملک میں خود کو آئندہ حکمرانوں کے روپ میں پیش کر رہے ہیں اور حکومت کے لئے کام کرنے والوں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ ملک کے مشرق اور جنوب کے کچھ علاقوں میں طالبان نے اپنے جج اور اپنے انتظامی افسر مقرر کر رکھے ہیں۔
شمالی افغانستان سے تعلق رکھنے والے محمد حامد نامی ایک مزدور کے مطابق طالبان پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ واقع افغان علاقوں پر ہی اکتفا نہیں کریں گے:’’ہر سال امن و امان کی صورتِ حال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی ہے۔ مجھے ایسے صوبوں کا پتہ ہے، جن کا انتظام بڑی حد تک طالبان ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ یہاں شمال میں بھی وہ روز بروز زیادہ طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘
حامد کو خدشہ ہے کہ افغانستان پھر سے کئی سالہ خانہ جنگی کا شکار ہونے والا ہے۔ اُس کے مطابق وہ اور اُس کے دوست اب صرف حکومتی فوج اور بین الاقوامی دستوں پر انحصار نہیں کرنا چاہتے۔ وہ روسی کلاشنکوف رائفلوں کا بندوبست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ حالات خراب تر ہو جانے کی صورت میں اپنے کنبوں کا دفاع کر سکیں۔
رپورٹ: رتبیل شامل (ڈوئچے ویلے پشتو سروس) / امجد علی
ادارت: مقبول ملک