امریکی، مغربی دباؤ: عمران خان کے بیان پر کئی حلقوں میں بحث
30 جون 2021ان ناقدین کے مطابق اس طرح کی کھلی بیان بازی سے پاکستان کے لیے ممکنہ طور پر پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک چینی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ اسلام آباد پر دباؤ ہے کہ وہ اپنے لیے چین اور مغرب میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے۔ ان کے بقول ساتھ ہی پاکستان پر یہ دباؤ بھی ہے کہ وہ چین کے حوالے سے اپنی پالیسی بدلے۔
افغان طالبان پر پاکستان کا اثر کتنا ہے؟
پاکستانی وزیر اعظم کا اس انٹرویو میں مزید کہنا تھا کہ خطے میں بڑی طاقتوں کے درمیان مخاصمت جاری ہے لیکن اسلام آباد پر یہ دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں تبدیلی لائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشکل کی ہر گھڑی میں چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔
دباؤ کی نوعیت
پاکستانی سوشل میڈیا اور مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ میں اس انٹرویو کے خوب چرچے ہیں اور ملک بھر کے کئی حلقوں میں اس پر بحث جاری ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ یہ دباؤ مختلف نوعیت کے ہیں۔
بھارت کشمیر پر روڈ میپ دے تو بات چیت کے لیے تیار ہیں، عمران خان
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صدر جو بائیڈن نے چین کو ایک طرح سے امریکا کا دشمن قرار دے دیا ہے اور امریکا چین کی معاشی ترقی روکنا چاہتا ہے۔ لہٰذا ہم پر دباؤ ہے کہ ہم سی پیک منصوبہ ختم کر دیں، چین کو بحر ہند تک راستہ نہ دیں، جو ہم نے گوادر کی شکل میں دیا ہے۔ واشنگٹن کو فوجی اڈے دیں۔ بھارت کے تسلط کو کشمیر میں تسلیم کریں اور ساتھ ہی اسرائیل کو بھی تسلیم کر لیں۔‘‘
'امریکا نے پاکستان کو صرف استعمال ہی کیا ہے‘
اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ امریکا نے پاکستان کو صرف استعمال ہی کیا ہے۔ ان کے بقول، ''ہم نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا۔ اب امریکا عبدالغنی برادر سے بات چیت کر کے جا رہا ہے اور پاکستان کو ایسے ہی استعمال کر کے چھوڑ دیا ہے۔ وہ خطے میں بھارت کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ نئی دہلی کو نکیل ڈالنے کے لیے ہمیں اسٹریٹیجک پارٹنر کی ضرورت ہے، جو امریکا نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ہمارے چین سے تعلقات یوں ہی رہیں گے اور ان پر کوئی دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘
'بیان میں حقیقت لیکن انداز نامناسب‘
تجزیہ نگار ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے لیکن سفارتی امور میں اس طرح بے باک ہوکر بولنا مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''امریکا کی ایک سامراجی انا ہے، جو اس طرح کے بیانات سے مجروح ہوتی ہے۔ عمران خان کئی معاملات میں ہوم ورک نہیں کرتے اور بغیر تیاری کے ہی مختلف امور پر رائے دینے لگتے ہیں۔ تاہم سفارتی معاملات میں بہت سی پیچیدگیا ں ہوتی ہیں اور بات یوں نہیں کی جاتی بلکہ دفتر خارجہ یا کسی اور ذریعے سے ایسی باتیں کی جاتی ہیں اور ان کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے۔‘‘
امجد شعیب کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ دونوں میں سے کسی ایک طرف کا ہو جائے۔
انہوں نے کہا، ''امریکا کی طرف تو ہم بالکل نہیں جا سکتے کیونکہ اس نے نہ ماضی میں اور نہ گزشتہ بیس برسوں میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ ہی کیا۔ پاکستان کو غیر نیٹو اتحادی قرار دیا لیکن جوہری ڈیل بھارت سے کی۔ اب وہ ہمیں چین کے خلاف کرنا چاہتا ہے اور ہم یہی بات واضح بھی کر چکے ہیں، جس کا نتیجہ آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کے ذریعے ہم پر دباؤ کی صورت میں نکلے گا۔''
پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ
پاکستانی سینیٹ کی ایک کیمٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دوہزار بارہ کی ایک کمیٹی رپورٹ کی روشنی میں پاک امریکا تعلقات استوار کرے۔ اس کمیٹی نے یہ سفارش کی تھی کہ امریکا سے کوئی زبانی معاہدہ نہ کیا جائے، پاکستان میں امریکی فوجیوں کی کوئی زمینی موجودگی نہ ہو اور نہ ہی کوئی خفیہ یا اعلانیہ آپریشن امریکا کے ساتھ مل کر کیا جائے۔ اس کمیٹی نے مزید کہا تھا کہ امریکا کو کوئی فوجی اڈے بھی نہ دیے جائیں۔
جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ پرانی ہے، ''لیکن اس میں رہنما اصول ہیں، جنہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس میں کئی ایسے نکات بھی ہیں، جن کا اب پاک امریکا تعلقات سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔‘‘
بھارت اور پاکستان میں بات کیوں نہیں بن پا رہی؟
'چین سے ہاتھ کھینچنا پڑے گا‘
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ بلند و بانگ دعووں کے باوجود پاکستان کو امریکی مطالبات ماننا پڑیں گے کیونکہ ملک کی خستہ مالی صورت حال کے پیش نظر اسلام آباد کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد سرفراز خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چین سے ہاتھ کھینچنا پڑیں گے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بتایا، ''وزیر اعظم عمران خان کا بیان صرف دکھاوا ہے، جس کا مقصد چین سے کچھ مالی مدد لینا ہے۔ لیکن آخر میں انہیں امریکا ہی کی ماننا پڑے گی۔ چین سے پاکستان نے پہلے ہی ہاتھ کھینچا ہوا ہے اور سی پیک پر کام رکا ہوا ہے۔ آنے والے وقتوں میں یہی ہاتھ مزید کھینچنا پڑے گا۔‘‘