1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستسری لنکا

’راجاپاکسے خاندان ملک چھوڑ کر نہیں جائے گا‘

10 مئی 2022

سری لنکا کے مہندا راجاپاکسے، جو ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے بعد وزارت عظمی کے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں، کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد ملک چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/4B5sS
Sri Lanka I Proteste in Colombo
تصویر: Ishara S. Kodikara/AFP/Getty Images

76 سالہ مہندا راجاپاکسے اس سیاسی خاندان کے سربراہ ہیں جس کی اقتدار پر گرفت کئی ماہ سے جاری بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کی کمی کے باعث کمزور ہو گئی ہے۔ سری لنکا سن 1948ء میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اس وقت اقتصادی طور پر اپنے مشکل ترین وقت سے گزر رہا ہے۔

’برا وقت گزر جائے گا‘

پیر کو مہندا کی سرکاری رہائش گاہ پر مظاہرین نے دھاوا بول دیا تھا جس کے بعد انہیں محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ ان کے بیٹے امل، جنہیں ایک زمانے میں مستقبل کا لیڈر کہا جاتا تھا، کا کہنا ہے کہ راجاپاکسے خاندان کا ملک چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ کئی ہفتوں سے اس جزیرہ ریاست میں مطاہرین مطالبہ کر رہے تھے کہ راجاپاکسے خاندان اپنے آپ کو اقتدار سے علیحدہ کرے۔ مہندا راجاپاکسے کے چھوٹے بھائی گوتابایا راجاپاکسے ملکی صدر ہیں۔

مہندا کے بیٹے امل کا کہنا ہے، ''ایسی افواہیں ہیں کہ ہم ملک چھوڑ دیں گے۔ ہم ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔‘‘ امل کے مطابق یہ عارضی برا وقت ہے جو گزر جائے گا۔

امل کا کہنا تھا کہ مہندا بطور رکن اسمبلی اپنا کام جاری رکھیں گے اور وہ ملک کے نئے وزیر اعظم کو منتخب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

مہندا کی سکیورٹی سے متعلق ان کے بیٹے جو کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں سے قبل اسپورٹس وزیر تھے، کا کہنا ہے کہ ان کے والد محفوظ ہیں۔ ''وہ ایک محفوظ مقام پر ہیں اور اپنے خاندان سے رابطے میں ہیں۔‘‘

سری لنکا، کسان بھی اب حکومت مخالف

'اگرعہدہ چھوڑ دیں تو ہم آپ کی پوجا کریں گے'،سری لنکا کےعوام کا وزیراعظم پر طنز

سری لنکا میں فسادات، ملکی وزیر اعظم نے استعفیٰ دے دیا

دو دہائیوں سے اقتدار پر قابض

سری لنکا کا راجاپاکسے خاندان گزشتہ دو دہائیوں سے اقتدار پر قابض ہے۔ مہندا کے چھوٹے بھائی گوتابایا راجاپاکسے کے پاس بطور صدر کافی اختیارات ہیں اور وہ ملکی سکیورٹی فورسز کے کمانڈر بھی ہیں۔ کئی ہفتوں سے جاری پر امن احتجاجی مظاہروں میں حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی گئی ہے۔ مظاہرین کے مطابق حکومت نے اقتصادی طور پر بہت بڑی غلطیاں کیں، جن سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچا۔

گوتابایا راجاپاکسے پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے عوامی تائید حاصل کرنے کے لیے ٹیکس کو بہت زیادہ کم کر دیا تھا جس سے ملکی آمدن کم ہوئی۔ کووڈ انیس وبا کے باعث سیاحت کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی اور ملکی زرمبادلہ گر گیا۔ حکومت کو اخراجات کم کرنے کے لیے درآمدات کم کرنا پڑیں جس سے ملک میں کئی اشیاء کی قلت ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ گوتابایا راجاپاکسے کی جانب سے کیمیائی کھاد کی درآمد پر پابندی عائد کر دینے کے فیصلے کو بھی تنقید کا سامنا ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ دیسی کھاد استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور اس تبدیلی سے انہیں بہت زیادہ مالی نقصان ہوا ہے۔

پیر کو یہ پر امن مظاہرے اس وقت پر تشدد ہو گئے جب دیہی علاقوں سے مہندا کے ہزاروں حمایتیوں کو بسوں میں کولمبو لایا گیا۔ ان حمایتیوں کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے حملے کیے گئے۔ حکومت مخالف مطاہرین کی جانب سے بھی کئی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

ب ج، ع س (اے ایف پی)