1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آتش فشانی کے ماحول پر اثرات

22 اپریل 2010

آئس لینڈ میں پھٹنے والے آتش فشاں کے نتیجے میں جہاں اس براعظم میں پروازیں شدید متاثر ہوئیں وہیں ماحول دوست اداروں اور کارکنان نے یہ بحث بھی شروع کر دی ہے کہ اس آتش فشانی سے ماحول پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/N36e
تصویر: AP

ماہرین کے مطابق آئس لینڈ میں آتش فشاں پھٹنے کے بعد فضا میں ملنے والی راکھ کے نتیجے میں عالمی درجہ حرارت میں روز بروز اضافے میں کوئی خاص کمی نہیں ہوگی۔ جیسا کہ سن انیس سو اکیانوے میں فلپائن میں Mount Pinatubo میں آتش فشاں پھٹنے کے واقع کے بعد محسوس کی گئی تھی۔

موسمیاتی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ آئس لینڈ کے آتش فشاں کے پھٹنے کے نتیجے میں اتنی زیادہ گیسیں اور مٹی ہوا میں تحلیل نہیں ہوئیں جس سے ماحول یا زراعت پر کوئی منفی اثرات مرتب ہوں۔

فلپائن اورسن انیس سو بیاسی میں میکسیکو کے Mount Chichon کے لاوا اُگلنے کے بعد فضا بہت زیادہ متاثر ہوئی تھی۔ شدید طریقے سے ان آتش فشاں پہاڑوں کے پھٹنے کے نتیجے میں فضا کی بالائی سطح پر بہت زیادہ گیسیں اور مٹی کے ذرات پائے گئے تھے جس کی وجہ سے کرہ ارض کئی مہینوں تک ٹھنڈا رہا۔ اس عمل کی وجہ سے صنعتوں کے باعث اٹھنے والی گرمی کی اثرات کچھ حد تک کم بھی ہوئے۔

Drohender Ausbruch des Ätna
آتش فشانی کے عمل میں پہاڑ سے لاوا کے ساتھ ساتھ راکھ اور زہریلی گیسیں بھی خارج ہوتیں ہیںتصویر: AP

آتش فشاں کے پھٹنے کے بعد ماحول کے ٹھنڈا ہونے کی وجہ بہت ہی سادہ ہے۔ آتش فشان کے پھٹنے کے نتیجے میں مٹی اور راکھ کے بادل فضا کے اوپری سطح پر پھیل جاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ سلفر ڈائی آکسائیڈ بھی پیدا کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کرہ ارض کی اوپری سطح پر سفید رنگ کی ایک چارد سی بن جاتی ہے ،جو سورج کی حدت کو زمین تک پہنچنے میں روکتی ہے۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ اور راکھ سے بنی یہ سفید چادر مہینوں اور سالوں تک قائم رہ سکتی ہے تاہم اس کا انحصار آتش فشاں کی شدت پر ہوتا ہے۔

جنیوا میں قائم بین الاقوامی ادارہ برائے موسمیات سے وابستہ Scylla Sillayo کے مطابق آئس لینڈ میں ہونے والی آتش فشانی کی شدت کوئی خاص زیادہ نہیں ہے اس لئے اس کے اثرات بھی کوئی خاص نہیں ہوں گے۔

ناروے کے موسمیاتی ادارے سے وابستہ موسمیاتی محقق Hans Olva Hygen کہتے ہیں: ’’ آئس لینڈ کے آتش فشاں کے پھٹنے کا عمل Pinatubo جیسے اثرات نہیں رکھتا۔ چونکہ اس کا اسکیل اتنا بڑا نہیں ہے اس لئے اس کے نتیجے میں ماحول پر بھی کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔‘‘

آئس لینڈ میں Eyjafjallajokull گلیشئیر کے اندر پھٹنے والے اس آتش فشاں کی شدت گزشتہ ماہ اس کے نزدیک ہی پھٹنے والے ایک دوسرے آتش فشاں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تھی۔ تاہم اس سے قبل آئس لینڈ میں کئی آتش فشاں بڑی شدت سے پھٹ چکے ہیں۔

برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات سے مسنلک کولن میک فیرسن کہتے ہیں: ’’ ماضی کے مقابلے میں پھٹنے والے آتش فشاں پہاڑوں کی نسبت ابھی تک اس آتش فشانی کی شدت مقابلتاً کم ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ سن سترہ سو تراسی اور چوراسی میں Laki میں ہونے والی آتش فشانی کے نتیجے میں یورپ بھر میں ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس کی وجہ سے کئی زہریلی گیسیں ہوا میں تحلیل ہو گئی تھیں اور زہریلی بارشوں کی وجہ سے زراعت پر بھی بہت برے اثرات مرتب ہوئے تھے۔

سائنس دان اس آتش فشانی کے بعد اس کے اثرات کے انسانی صحت پر ممکنہ اثرات کا جائزہ لینے کے لئے کم بستہ ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پینل کے مطابق ہوا میں شامل ہونے والی راکھ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ گیسیں واپس زمین پرآسکتی ہیں جس کے نتیجے میں سانس کی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہے۔

Vulkanausbruch in Kongo
آتش فشانی سے انسانی صحت پر ممکنہ اثرات پرتحقیق جاری ہےتصویر: AP

واضح رہے کہ کئی سائنس دان سلفر گیسیوں کو دانستہ طور پر کرہ ارض کی سطح کی اوپری فضا میں شامل کرنے کی دلالت بھی کرتی ہیں تاکہ عالمی درجہ حرارت کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اس عمل کو ’ جیو انجنئیرنگ‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے سانئس دانوں کا کہنا ہے کہ اس مصنوعی عمل سے خشک سالی، سمندروں کی سطح میں اضافے، بارش کی کمی اور دیگر ایسے اثرات سے چھٹکارہ پایا جا سکتا ہے جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے رونما ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف اس کی مخالفت کرنے والوں کا موقف ہے کہ اس مصنوعی طریقے سے ہم اس کرہ ارض کو تباہ کر سکتے ہیں جس کے خطرناک اثرات مرتب ہو ں گے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں