آج پیر کو چوہوں کا عالمی دن ہے
4 اپریل 2016ہندو بھگوان گنیش کو اکثر چوہے پر سوار دکھایا جاتا ہے۔ ان دونوں کے تعلق کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ابتدا میں گنیش بھگوان دنیاوی رکاوٹوں کو دور کرنے والا تھا جبکہ چوہا اپنے تیز دانتوں سے ان رکاوٹوں کو کترنے میں مدد فراہم کرتا تھا۔ اس لیے ہندو اساطیر میں اس چھوٹی سی مخلوق سے ان گنت داستانیں منسوب ہیں۔
اسی طرح چین میں بھی چوہا انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ چینی لوگ اسے تصوراتی تحریک، تجسس اور وسائل کی بھرمار سے تعبیر کرتے ہیں۔ چوہا چینی کلینڈر کا پہلا اور نمایاں جانور بھی ہے۔ چین میں سن 2020 میں اس تناظر میں بڑی تقریبات کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔ تاہم دنیا کے دیگر خطوں میں چوہے سے کوئی خاص ہمدردی نہیں ہے۔
یورپ میں سن 1346 تا سن 1353 کوڑھ کی بیماری پھیلی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس دوران پچھتر تا دو سو ملین افراد اس مرض کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے۔ اس بیماری کے پھیلنے کی وجہ کالے رنگ کے خاص چوہوں کو قرار دیا گیا تھا۔ تاہم اگر ماضی کا مطالعہ کرتے ہوئے اس وباء کے پھیلنے کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو چوہوں پر عائد یہ الزام غلط بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کوڑھ کا مرض وسطی ایشیا سے کریمیا پہنچا، جہاں سے یہ یورپ آیا۔ وسطی ایشیا میں اس بیماری کو تاریخی طور پر ’گابریئل‘ نامی ایک چوہے سے منسوب کیا جاتا رہا۔ موسم کی شدت کے نتیجے میں یہ چوہے تو مر گئے لیکن حشرات نے ان مرے ہوئے چوہوں سے جراثیم دیگر علاقوں میں منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
سن 2015 میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اونٹوں اور بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے دیگر جانوروں سے چمٹے یہ حشرات انہی جانوروں کے ساتھ ساتھ یورپ بھی پہنچ گئے۔ پھر ان حشرات نے ان جراثیم کو نہ صرف چوہوں میں منتقل کیا بلکہ براہ راست انسانوں کو بھی متاثر کیا۔ یوں یہ وباء اس وقت یورپ کی ساٹھ فیصد آبادی کو نگل گئی تھی۔
آج کل کی جدید اور شہری زندگی میں چوہے زیادہ خطرناک نہیں ہیں، جیسا کہ وہ قرون وسطیٰ میں ہوا کرتے تھے۔ سن 2014 میں ایک اندازہ لگایا گیا تھا کہ نیو یارک سٹی میں آٹھ ملین چوہے ہیں تاہم حقیقت میں یہ تعداد تقریباﹰ دو ملین بنتی ہے۔ نیو یارک جیسے شہر میں بہرحال چوہوں کی اتنی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔
طبی سائنس میں بھی چوہے کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس پر تجربات کیے جاتے ہیں۔ چوہے اور انسان کے اعصاب، نفیسات اور ہارمونز میں مماثلتوں کی وجہ سے ان تجربات کو اہم بھی قرار دیا جاتا ہے۔ انہی تجربات کے باعث ڈاکٹروں کو انسانوں کی جسم میں اعضا کی پیوند کاری کے حوالے سے کئی اہم معلومات بھی حاصل ہوئی ہیں۔ یہ البتہ ایک یقینی بات ہے کہ لیبارٹری میں تجربے کے بعد چوہے کو ہلاک بھی کر دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن اس طرح کے تجربات کو غیر ضروری اور ’وحشیانہ عمل‘ بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانوں اور چوہوں کی بیماریوں کو ایک طریقے سے نہیں پرکھا جا سکتا۔ جرمنی میں جانوروں کے ڈاکٹروں کے ایک گروپ DAAE کی سربراہ کورینا گیرِکّےCorina Gericke کہتی ہیں، ’’جانوروں پر تجربات کے نتائج گمراہ کن اور غیر متعلق ہیں۔‘‘
افریقی چوہوں کو سدھایا بھی جاتا ہے، جو اپنی سونگھنے کی صلاحیت سے بارودی سرنگوں کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ بیلجیم کی غیر سرکاری تنظیم Apopo چوہوں کو سدھانے کا کام کامیابی سے کر رہی ہے۔ بلی کے سائز کے ان بڑے بڑے چوہوں کا وزن کم ہوتا ہے اور ان کے قدموں کی وجہ سے دھماکا خیز مواد پھٹتا نہیں ہے۔ تنزانیہ، موزمبیق، انگولا اور کمبوڈیا میں سدھائے ہوئے یہ چوہے بارودی سرنگوں کا کامیابی سے سراغ لگا رہے ہیں۔
یہ بڑے چوہے نہ صرف ٹی این ٹی مواد کا پتا چلا لیتے ہیں بلکہ ان کی سونگھنے کی حس اس قدر تیز ہوتی ہے کہ یہ تپ دق کی علامات کی نشاندہی میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ موزمبیق میں ان چوہوں نے ڈاکٹروں کی مدد کرتے ہوئے اس مرض میں مبتلا بہت سے لوگوں کی نشاندہی کی، جس کے نتیجے میں ان مریضوں کا فوری طور پر علاج شروع کرنے میں بھی مدد ملی۔