آسٹریلیا میں وزیر اعظم گیلارڈ کی نئی حکومت بن گئی
8 ستمبر 2010لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی جولیا گیلارڈ، جو آسٹریلیا کی پہلی خاتون سربراہ حکو مت ہیں، اپنی پارٹی میں چند ماہ پہلے تک کی قیادت کے خلاف داخلی بغاوت کے نتیجے میں قریب دس ہفتے قبل اقتدار میں آئی تھیں۔ تقریباﹰ تین ہفتے پہلے ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ان کی لیبر پارٹی کو یوں تو دوسری جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ پارلیمانی نشستیں حاصل ہوئی تھیں مگر یہ جماعت قطعی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔
اس طرح سترہ روز تک جاری رہنے والے اور بہت تھکا دینے والے سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں وہ ایسے ارکان پارلیمان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں، جو نئی آسٹریلوی پارلیمان میں عملاﹰ ’بادشاہ گر‘ ثابت ہونے لگے تھے۔ منگل کے روز گیلارڈ کا اپنے اقتدار کے تسلسل کو یقینی بنانا اس طرح ممکن ہوا کہ ان کی لیبر پارٹی دو ایسے انتہائی اہم آزاد ارکان کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی، جن کی حمایت سے نئی حکومت کو پارلیمان میں ایک ووٹ کی برتری بھی مل گئی۔
اکیس اگست کو ہونے والے آسٹریلوی پارلیمانی الیکشن کے نتائج ایسے رہے تھے کہ 48 سالہ گیلارڈ کے لئے اپنی مرکز سے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی حکومت قائم رکھنا انتہائی مشکل ہو گیا تھا۔ اس دوران کئی مرتبہ یہ امکانات بھی بہت قوی ہو گئے تھے کہ آسٹریلیا کی یہ پہلی خاتون وزیر اعظم اس ملک میں اب تک سب سے کم عرصے کے لئے اقتدار میں رہنے والی سربراہ حکومت بن جائیں گی لیکن گیلارڈ نے ہمت نہ ہاری اور بالآخر کینبرا میں 150 رکنی پارلیمان میں 76 ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔
کینبرا میں آج بالآخر نئی حکومت قائم ہو جانے کے بعد جولیا گیلارڈ کے سب سے بڑے حریف سیاستدان اور لبرل رہنما ٹونی ایبٹ نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: ’’آسٹریلوی تاریخ کا سب سے طویل الیکشن آخر کار مکمل ہو گیا ہے۔‘‘
نئی پارلیمان میں گیلارڈ کے حکومتی اتحاد کی 76 نشستوں کے مقابلے میں اپوزیشن رہنما ایبٹ کے لبرل نیشنل اتحاد کو 74 سیٹیں حاصل ہیں اور یوں نہ صرف حکومت اور اپوزیشن کی پارلیمانی طاقت بھی قدرے برابر ہے بلکہ صرف ایک ووٹ کی کم ازکم ممکنہ اکثریت کی وجہ سے جولیا گیلارڈ کی نئی حکومت کو اپنا ہر بڑا فیصلہ بھی بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ