آسیہ کی ملک سے روانگی کی جعلی تصویریں، حکومت کا نیا دردِ سر
12 نومبر 2018پاکستانی دارالحکومت سے پیر بارہ نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی یہ مشکل ابھی ختم نہیں ہوئی کہ توہین مذہب کے الزام میں آٹھ سال سے زائد عرصہ جیل میں رہنے والی جس خاتون آسیہ بی بی کو سزائے موت سنا دی گئی تھی اور جسے گزشتہ ماہ کے آخر میں سپریم کورٹ نے بری کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا، اس کی ممکنہ رہائی کے خلاف احتجاج کرنے والے قدامت پسند مسلمانوں کے احتجاج پر اتر آنے والے حلقوں کو مطمئن کیسے کیا جائے۔
ایسے میں پاکستانی سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ آسیہ بی بی مبینہ طور پر پاکستان سی رخصت ہو چکی ہیں۔ اگرچہ یہ تصویریں جعلی ہیں، تاہم ان کا ملکی سوشل میڈیا پر گردش میں ہونا حکومت کے لیے ایک نیادردِ سر بن چکا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ بات واضح نہیں کہ ان تصویروں کے پیچھے کون ہے، لیکن ان کا یہ مقصد بہرحال واضح ہے کہ یہ جعلی تصویریں آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف عوامی جذبات کو مشتعل کرنے کی ایک سوچی سمجھی کاوش ہیں۔
آسیہ بی بی کی رہائی کے اکتوبر کے آخر میں پاکستانی سپریم کورٹ کی طرف سے سنائے جانے والے فیصلے کے کافی دن بعد اس پاکستانی اقلیتی شہری کو ملتان کی ایک جیل سے رہا کر کے اسلام آباد پہنچا دیا گیا تھا اور حکام کے مطابق یہ خاتون ابھی تک پاکستان ہی میں ہیں۔
آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف فوراﹰ ہی ایک جائزہ اپیل بھی عدالت میں دائر کر دی گئی تھی اور اس وقت آسیہ کو ان کی حفاظت کے پیش نظر پاکستان ہی میں ایک خفیہ مقام پر رکھا گیا ہے اور انہیں ممکنہ طور پر تب تک پاکستان سے روانگی کی اجازت نہیں ہو گی، جب تک اس اپیل پر کوئی نیا عدالتی فیصلہ سامنے نہیں آ جاتا۔
اس بارے میں پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سوشل میڈیا پر آسیہ بی بی کی ملک سے مبینہ روانگی کی جعلی تصویروں کے گردش کرنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے پیر کے روز کہا کہ ایسی تمام تصویریں جعلی ہیں۔ ان میں سے ایک تصویر میں آسیہ بی بی کو پاپائے روم سے ملاقات کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔ فواد چوہدری کے مطابق پوپ فرانسس کے ساتھ ملاقات کی یہ تصویر دراصل آسیہ بی بی کی نہیں بلکہ ان کی بیٹی کی ہے، جس نے پاپائے روم سے قریب دو سال قبل ایک ملاقات کی تھی۔
پاکستان میں یہ جعلی تصویریں سماجی طور پر عوامی جذبات کو کیسے مشتعل کر رہی ہیں، اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ایسی ہی ایک تصویر کے حوالے سے پاکستان میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے ایک رکن پارلیمان فضل خان کو واضح طور پر قتل کی دھمکیاں بھی دی جا چکی ہیں۔
م م / ع ح / اے پی