اثاثوں کی تفصیلات، ججوں اور فوجی افسروں کو چھوٹ کیوں؟
3 فروری 2023سیاست دانوں اور ٹیکس ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کا یہ اقدام امتیازی ہے اور یہ کہ حکومت کے اس فیصلے کا اطلاق تمام سرکاری ملازمین پر ہونا چاہیے۔
عادل راجہ کے الزامات کا نشانہ اداکارائیں، فوج یا باجوہ؟
پاکستان کے غیر سیاسی بانکے سجیلے
انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق پہلے مرحلے میں بینک وفاقی حکومت کے ملازمین کے اثاثوں کی تفصیلات تک رسائی حاصل کر سکیں گے جبکہ بعد میں یہ رسائی صوبائی ملازمین کے اثاثوں تک بھی ہوگی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ حکومت نے یہ اقدام عالمی مالیاتی ادارے کے دباؤ پر اٹھایا ہے، جو کئی برسوں سے حکومت کو اس طرح کے اقدامات اٹھانے پر مجبور کر رہا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے ترجمان عابد احتشام سے جب ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے دریافت کیا، یا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ان دنوں چھٹیوں پرہیں اور یہ کہ متعلقہ ادارے کے افسر سے بات کی جائے۔
اقدام کا پس منظر
تاہمفیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اس طرح کے قواعد 2009 سے ملک میں ہیں لیکن غالباﹰ ان پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا۔ ان ریگولیشنز کو اپنے کسٹمر کو پہچانیے جیسی ریگولیشنز کے تحت پوری دنیا میں متعارف کرایا گیا تھا اور عالمی ادارے کا دباؤ تھا کہ پاکستان میں بھی اس پر عمل درآمد کیا جائے۔
اس افسر کے مطابق 2017 میں ایف اے ٹی ایف کے مسئلے کے بعد اس پر عملدرآمد میں تھوڑی سی تیزی آئی تھی لیکن اب ایف بی آر نے نوٹیفیکیشن جاری کر کے اس ریگولیشن کو مزید سخت کر دیا ہے۔
حکومت کا اقدام امتیازی ہے
تاہم ملک کے کئی حلقے حکومت کے اس اقدام پر تنقید بھی کر رہے ہیں اور اس کو امتیازی قرار دے رہے ہیں۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے معروف سیاستدان حاجی لشکری رئیسانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں حکومتکا یہ اقدام امتیازی ہے کیونکہ کہ اگر حکومت کو اس کا اطلاق ہی کرنا ہے ہے تو اس کا اطلاق تمام سرکاری ملازمین پر ہونا چاہیے۔ ججوں یا فوجی افسران کو کسی طرح کی کوئی کوئی استثناء نہیں ملنی چاہیے۔‘‘
حاجی لشکری رئیسانی کے مطابق اگر تمام سرکاری ملازمین میں نے اپنے اثاثے ظاہر کریں گے تو اس سے سے سرکاری اداروں میں ممکنہ طور پر شفافیت آ سکتی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ سرکار ان ملازمین کا بھی احتساب کرے جنہوں نے جزیرے خریدے، پیزا کی شاخیں کھولیں یا بیرون ملک اثاثے بنائے۔
سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری منظوراحمد نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری پارٹی کا یہ موقف ہے کہ اگر کسی قانون کا اطلاق کرنا ہے تو اس کا اطلاق بلا امیتاز ہونا چاہیے۔‘‘
ٹیکس کلیکشن میں بہتری آ سکتی ہے
لاہور سے تعلق رکھنے والے ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں افسر شاہی کے افراد بہت امیر تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم ملک میں دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی صحیح طریقے سےٹیکس ادا نہیں کرتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر جج، فوجی افسران اور افسر شاہی کے تمام افراد اپنے اثاثوں کی تفصیلات بتائیں گے، تو ان تفصیلات کی روشنی میں ان پر ٹیکس لگے گا۔ اور جب ان پر ٹیکس لگے گا تو یقینا ٹیکس کلیکشن میں بھی بہتری ہوگی۔‘‘
کوئی مقدس گائے نہیں ہونی چاہیے
ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کرتا۔ '' بہت سارے سرکاری ملازمین کہتے ہیں کہ ان کی تنخواہ سے ٹیکسز کٹ جاتے ہیں۔ تو ان کو ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق حکومت کا یہ اقدام انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ ''ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئ بھی مقدس گائے نہ ہو اور سب کو اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا پابند کیا جائے۔ اگر سیاستدان اپنے اثاثے ظاہر کر سکتے ہیں، تو فوجی افسران اور جج ظاہر کیوں نہیں کر سکتے۔‘‘