احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملے، کم ازکم 80 ہلاک
28 مئی 2010اس وقت دونوں عبادت گاہوں میں جاری آپریشن مکمل کیا جا چکا ہے۔ سرچ اور ریسکیو آپریشن کے باوجود صحافیوں کو ابھی تک متاثرہ عبادت گاہوں میں جانے کی اجازت نہیں مل سکی ہے۔
جائے واردات پر عام لوگ، پولیس، ریسکیو سروس کے کارکن اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق احمدیوں کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملے خود کش حملہ آوروں نے کئے تھے۔ عینی شاہدوں کے مطابق خود کار ہتھیاروں اور دستی بمبوں سے مسلح خود کش حملہ آوروں نے اس وقت احمدیوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جس وقت وہاں عبادت کی جا رہی تھی۔
ماڈل ٹاون کے علاقے میں پولیس نے جائے واردات سے دو خود کش حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان میں سے ایک کا تعلق رحیم یار خان سے بتایا جا رہا ہے۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲکے مطابق گرفتار ہونے والے حملہ آور نے کراچی سے دینی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ گرفتار ہونے والے دوسرے حملہ آور کو شدید زخمی حالت میں جناح ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ جہاں اس کی حالت غیر تسلی بخش بتائی جا رہی ہے۔
لاہور کے معروف علاقے گڑھی شاہو کے قریب واقع احمدیوں کی مرکزی عبادت گاہ "دارالذکر" میں ہونے والا دہشت گردی کا یہ واقعہ اس قدر شدید تھا کہ وہاں ارد گرد کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے ۔ جائے واردات پر جگہ جگہ خون کے نشان بکھرے ہوئے ہیں اور سوگوار لوگ بڑی تعداد میں دکھائی دے رہے ہیں۔ حملہ آوروں اور پولیس کے درمیان دیر تک فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔ حملہ آوروں کی فائرنگ کی زد میں آ کر ایک مقامی ٹی وی چینل کا ایک اہلکار بھی ہلاک ہو گیا جبکہ زخمی ہونے والوں میں پولیس کے دو سینئر افسران بھی شامل ہیں۔
زندہ بچ رہنے والے دو حملہ آوروں کے علاوہ باقی سب حملہ آور سیکویرٹی فورسز کےساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہو گئے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی ہدایت پر ان حملوں کی تحقیقات کیلئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ جنہوں نے جائے حادثہ سے شواہد اکٹھے کرنے کا کام مکمل کر لیا ہے۔
لاہور کے کمشنر خسرو پرویز کا کہنا ہے کہ کیونکہ یہ حملے ایک ایسے موقعے پر ہوئے ہیں جب پاکستانی قوم ’یوم تکبیر‘ کے نام سے ایٹمی دھماکوں کی سالگرہ منا رہی تھی۔ ان کے بقول ان واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ ملوث ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے صدر، وزیر اعظم اور ملک کے تمام بڑے سیاسی رہنماوں کی طرف سے جمعے کے روز ہونے والے ان افسوس ناک واقعات کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
پاکستان میں احمدیوں کے خلاف اتنے بڑے حملے کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ان حملوں میں احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے مقامی ایک عہدے دار بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔
ادہر ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان نے احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے اقلیتیوں کی حفاظت کیلئے سخت حفاظتی انتظامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعے کی شام جاری کئے جانے والے ایک بیان میں انسانی حقوق کمشن پاکستان کی سربراہ آصمہ جہانگیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب کی صوبائی حکومت کو قادیانیوں پر ممکنہ حملے کے حوالے سے بہت پہلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔
جمعہ کے روز ہونے والے دہشت گردی کے ان واقعات کے بعد ملک بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے اور اہم عمارتوں اور اہم شخصیات کی سیکورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کی پارلیمان نے سن انیس سو تہتر میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا ۔ بعدازں فوجی آمرجنرل ضیاءالحق کےدورمیں اس اقلیت پرمزید پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔
رپورٹ: تنویرشہزاد، لاہور
ادارت: عاطف بلوچ