1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اخونزادہ کا عید الاضحی کے ليے پيغام، عورتوں کے حقوق پر زور

25 جون 2023

افغانستان کے سپريم ليڈر نے دعویٰ کيا ہے کہ عورتوں کی زندگی ميں بہتری لانے کے ليے اقدامات کيے جا رہے ہيں۔ دوسری جانب ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ملک میں عورتوں کی حالتِ زار ’دنیا کی بدترین میں سے ایک ہے‘۔

https://p.dw.com/p/4T2J6
Mullah Haibatullah Akhundzada
تصویر: Social Media/REUTERS

افغانستان کے سپريم ليڈر ہیبت اللہ اخونزادہ نے عید الاضحیٰ کے ليے اپنے خصوصی پيغام ميں کہا ہے کہ اسلامی طرز حکومت کی بدولت خواتين کو روايتی مظالم سے بچايا جا رہا ہے اور ان کی 'آزاد و باقار انسانوں‘ کے طور پر حيثيت بحال کی جا رہی ہے۔

'افغان خواتین پر پابندی کے سبب طالبان کو تسلیم کرنا ناممکن'

طالبان کی’عورت کشی‘ عالمی جرم قرار دی جائے، عالمی مبصر

طالبان کے ساتھ مغربی مذاکرات، پاکستان اور بھارت بھی

قندھار سے طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ کا يہ بيان آج اتوار 25 جون کو پانچ زبانوں ميں جاری کيا گيا۔ اخونزادہ شاذ و نادر ہی منظر عام پر آتے ہيں۔

اپنے بيان ميں انہوں نے دعوی کيا ہے کہ عورتوں کی زندگی ميں بہتری لانے کے ليے اقدامات کيے گئے ہيں۔ اخونزادہ نے بتايا کہ عورتوں کو دقيانوسی روايات اور جبری شاديوں سے تحفظ فراہم کرنے اور ان کے شرعی حقوق کے تحفظ کے ليے اقدامات کيے گئے ہيں۔ انہوں نے مزيد کہا کہ تمام اداروں کو احکامات جاری کيے گئے ہيں کہ عورتوں کی عزت و احترام کو يقينی بنايا جائے۔

اخونزادہ نے اپنے اس بيان ميں فلسطينيوں کے ساتھ اسرائيلی فوج کے رويے کو بھی تنقيد کا نشانہ بنايا۔

طالبان سے لڑنے والی افغان خواتین کا غیر یقینی مستقبل

اگست 2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد طالبان نے لڑکیوں اور خواتین کو ہائی اسکول یا یونیورسٹی جانے سے روک دیا۔ ان پر پارک اور جم وغیرہ جانے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ عورتوں کے ليے يہ لازم ہےکہ وہ گھر سے نکلتے وقت پردہ کريں۔ علاوہ ازيں عورتوں کو اقوام متحدہ سمیت دیگر این جی اوز کے لیے کام کرنے سے بھی روک دیا گيا ہے جبکہ خواتين سرکاری ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے برخاست کر دیا گیا یا انہیں گھر پر رہنے کے لیے تنخواہ دی جا رہی ہے۔

اخونزادہ نے کہا کہ دسمبر 2021ء میں جاری ہونے والے چھ نکاتی حکم نامے میں خواتین کو ان کے حقوق کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس حکم نامے ميں جبری شادیوں کو غیر قانونی قرار دیا گيا اور عورتوں کے ليے وراثت اور طلاق کے حق کو شامل کیا گیا۔

ادھر افغانستان کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کی طرف سے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو دی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں خواتین اور لڑکیوں کی حالتِ زار 'دنیا کی بدترین میں سے ایک ہے‘۔ بینیٹ نے کہا، ''خواتین اور لڑکیوں کے خلاف سنگین، منظم اور ادارہ جاتی امتیازی سلوک طالبان کے نظریے اور حکمرانی کا عکاس ہے، جو ان خدشات کو بھی جنم دیتا ہے کہ وہ صنفی امتیاز کے لیے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کی ڈپٹی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق ندا النشف کے مطابق، ''گزشتہ 22 مہینوں کے دوران، خواتین اور لڑکیوں کی زندگی کے ہر پہلو کو محدود کر دیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ ہر طرح سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔‘‘

ع س/ا ب ا (اے ایف پی، اے پی)