طالبان کی’عورت کشی‘ عالمی جرم قرار دی جائے، عالمی مبصر
19 جون 2023اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے پیر کو خطاب میں بیننٹ نے کہا کہ افغانستان میں خواتین کے خلاف ایک منظم طریقے سے استحصالی اقدامات جاری ہیں۔ طالبان نے سن 2021 کے اگست میں کابل پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم اب تک دنیا کے کسی ملک نے یہ حکومت تسلیم نہیں کی ہے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کا امدادی بجٹ ساڑھے چار کے بجائے تین بلین ڈالر
دو اسکولوں میں ایک سو طلبہ کو زہر دیا گیا، افغان حکام
افغانستان پر قبضے کے بعد طالبان نے سخت ترین شریعہ قوانین کے نفاذ کر اعلان کیا تھا اور لڑکی کی ثانوی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی جب کہ خواتین کو سرکاری ملازمتون سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ طالبان نے خواتین کے تنہا سفر تک پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جب کہ خواتین کو پردے کے احکامات بھی جاری کیے گئے تھے۔
جنیوا میں قائم انسانی حقوق کی کونسل سے خطاب میں بیننٹ نے کہا، ''یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم صرف نظر نہ کریں۔‘‘ افغانستان سے متعلق اپنی تازہ رپورٹاقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کے اقدامات 'صنفی تشدد‘ کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین اور لڑکیوں سے متعلق شدید، منظم اور باقاعدہ امتیاز طالبان کے نظریے اور حکمرانی کا ایک بنیادی نکتہ ہے، جس سے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر وہ 'عورت کشی‘ تک میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، مزید تفتیش کا مطالبہ کرتی ہیں تاکہ طے ہو کہ آیا یہ بین الاقوامی جرم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کے خلاف اس سطح کے امتیاز کو بین الاقوامی جرم قرار دینے سے مختلف ممالک میں اس معاملے پر شعور و آگہی میں اضافہ ہو گا۔
افغانستان کے انڈیپینڈنٹ ہیومن رائیٹس کمیشن کی سابق سربراہ اور رواداری گروپ کی سربراہ شہرزاد اکبر نے کہا، ''خواتین زندہ دفن کرنے کے معاملے میں بات تو کرتی ہیں، مگر خواتین پابندیوں اور سزاؤں کو جھیلے بغیر کچھ نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے کہا، ''طالبان نے افغانستان کو افغان خواتین، ان کے خوابوں، ان کی اُمیدواں اور ان کے امکانات کے قبرستان میں بدل دیا ہے۔‘‘
ک م/ ک م(اے پی)