اردن میں اخوان المسلمون کے خلاف کریک ڈاؤن جاری
13 اپریل 2016اردن کا گروپ ’اخوان المسلمون‘ اسی نام کے مصری گروپ سے نظریاتی طور پر بھی قربت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے فلسطینی تنظیم حماس کے ساتھ بھی گہرے روابط ہیں۔ یہ گروپ اردن میں وسیع تر سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن یہ گروپ اپنے مطالبات میں ابھی اس حد تک نہیں گیا کہ پوری بادشاہت کا ہی تختہ الٹ دیا جائے۔
’عرب اسپرنگ‘ کے نام سے چند سال پہلے پوری عرب دنیا میں جمہوریت کے حق میں جو مظاہرے شروع ہوئے، اُن کی باز گشت اردن میں بھی سنائی دی تاہم اردن کے حکام نے ان احتجاجی مظاہروں کو سختی سے دبا دیا اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں کا کہنا ہے کہ تب سے اس ملک کے حکام اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اردن کے آس پاس کے ملکوں میں بھی حکومتیں مسلمان مذہبی جماعتوں اور شہری آزادیوں کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں، جیسے کہ مثلاً مصر میں۔ اردن میں بھی حکومت گزشتہ تقریباً دو برسوں سے ’اخوان المسلمون‘ کے گرد گھیرا تنگ کرتی جا رہی ہے۔ اس گروپ کو عام جلسے جلوسوں کی بھی اجازت نہیں دی جاتی جبکہ اس کے جو ارکان زیادہ احتجاج کرتے ہیں، اُنہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
اس گروپ کے ڈپٹی لیڈر ذکی بنی رشید اٹھارہ ماہ تک جیل میں رہے، جس کے بعد اُنہیں ابھی رواں سال کے اوائل میں ہی رہا کیا گیا تھا۔ اُنہیں یہ سزا اس لیے دی گئی تھی کہ اُنہوں نے متحدہ عرب امارات کے حکام کی جانب سے اسلام پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کو سوشل میڈیا پر ہدفِ تنقید بنایا تھا۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے اس گروپ کے عملے کو باہر نکال کر ہیڈ کوارٹرز کو سربمہر کرنے کی کارروائی عمان کے گورنر کے احکامات پر کی۔ ’اخوان المسلمون‘ کے ایک سینیئر رکن جمیل ابو بکر کے مطابق پولیس نے اپنے اس اقدام کے لیے کوئی وجہ نہیں بتائی۔ روئٹرز کا کہنا ہے کہ اس کارروائی پر حکومت اور پولیس کا ردعمل جاننے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔
جمیل ابو بکر نے روئٹرز کو بتایا:’’ہم کوئی ایسا گروپ نہیں ہیں، جو باغی ہو یا قانون کے دائرے سے باہر سرگرمِ عمل ہو۔ ہمارے ساتھ یہ کوئی مناسب برتاؤ نہیں کیا جا رہا۔ افہام و تفہیم کی بجائے ہمارے خلاف اتنے بھاری اور سخت سکیورٹی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘‘
گروپ ’اخوان المسلمون‘ گزشتہ کئی عشروں سے اردن میں قانونی طور پر سرگرمِ عمل رہا ہے اور اِسے بڑے شہروں میں بھی خاصی حمایت حاصل ہے۔ اس گروپ کا سیاسی بازو ’اسلامک ایکشن فرنٹ‘ ہے، جو اردن کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے۔ یہ جماعت اردن کے اُن زیادہ تر غریب فلسطینی نژاد شہریوں کی نمائندگی کرتی ہے، جنہیں اس ملک کی سات ملین کی آبادی میں اکثریت حاصل ہے اور جنہیں اپنے حقوق کے حوالے سے کئی شکایات بھی ہیں۔
ان فلسطینی نژاد شہریوں کو پارلیمنٹ اور حکومتی عہدوں میں اپنی آبادی کے تناسب سے کہیں کم نمائندگی حاصل ہے۔ وہاں اردن کے مقامی باشندوں کا ہی غلبہ ہے۔