اسرائیل کو تین آبدوزوں کی فروخت، جرمن حکومت نے منظوری دے دی
23 اکتوبر 2017وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق جرمن حکومت کے ترجمان اشٹیفن رائبرٹ نے پیر تئیس اکتوبر کے روز صحافیوں کو بتایا کہ اسرائیل کو یہ آبدوزیں بہت بڑے جرمن صنعتی ادارے ’تِھسّن کرُپ میرین سسٹمز‘ (TKMS) کی طرف سے مہیا کی جائیں گی۔
اشٹیفن زائبرٹ نے کہا کہ اسرائیل اور جرمنی کے مابین یہ دفاعی تجارتی منصوبہ طویل عرصے سے تعطل کا شکار تھا، جس کی اب نہ صرف برلن میں وفاقی حکومت نے منظوری دے دی ہے بلکہ اسی منصوبے سے متعلق دونوں ممالک کی حکومتوں کے مابین ایک باقاعدہ معاہدے کی دستاویز پر آج تئیس اکتوبر کے روز دستخط بھی کیے جا رہے ہیں۔
72 برس بعد ’انڈیاناپولِس‘ کا ملبہ ڈھونڈ لیا گیا
پاکستان: آبدوز سے داغے جانے والے جوہری صلاحیت کے حامل میزائل کا تجربہ
میرکل حکومت کے ترجمان کے مطابق آبدوزوں کی فروخت کے حوالے سے جرمن اور اسرائیلی حکومتوں کے مابین معاہدہ اس بارے میں ہو گا کہ برلن حکومت اس ڈیل کے لیے اسرائیل کو مالی امداد کی صورت میں کتنے وسائل مہیا کرے گی۔
اشٹیفن زائبرٹ نے بتایا کہ جرمنی ان آبدوزوں کی خریداری کے لیے اسرائیل کو کتنی رقوم دے گا، یہ بات خفیہ ہی رکھی جائے گی لیکن برلن کی طرف سے اس امداد کی فراہمی کی وجہ یہ ہے کہ جرمنی یہ محسوس کرتا ہے کہ اسرائیل کی ریاستی سلامتی کے حوالے سے اس پر ایک خاص ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
یہ آبدوزیں جرمن صنعتی ادارے ٹی کے ایم ایس کی طرف سے شمالی جرمنی کے بندرگاہی شہر کِیل میں تیار کی جائیں گی۔ اب تک برلن میں وفاقی چانسلر کے دفتر نے اس فروخت کی منظوری اس لیے نہیں دی تھی کہ اسے شبہ تھا کہ شاید اس معاہدے میں رشوت کے طور پر کچھ ادائیگیاں کی گئی تھیں۔ تاہم حکومتی چھان بین کے بعد یہ ثابت ہو گیا تھا کہ یہ معاہدہ شفاف تھا اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی غیر شفاف مالی ادائیگیاں نہیں کی گئی تھیں۔
بھارتی آبدوز کو ساحلی حدود سے باہر دھکیل دیا: پاک بحریہ
بھارتی آبدوزوں سے متعلق خفیہ دستاویزات منظر عام پر
اشٹیفن زائبرٹ نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ تعطل کے شکار اسی معاہدے کے سلسلے میں اسرائیل میں بھی چھان بین کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں کوئی بےقاعدگی سامنے نہیں آئی تھی۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اسی معاہدے کے سلسلے میں اسرائیل میں حکام نے نہ صرف جرمن ادارے TKMS کے ایک سابق کاروباری پارٹنر کو گرفتار کر لیا تھا بلکہ اسی پس منظر میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کے ایک سابق سربراہ اور ایک سابق اسرائیلی وزیر کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا۔
اسی اسکینڈل کی وجہ سے خود اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھی کافی زیادہ دباؤ کا شکار رہے تھے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اس معاہدے سے متعلق ملکی فوج اور وزارت دفاع کی خواہشات کے برعکس اپنی مرضی منوانے کی کوشش کی تھی۔
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اسرائیل کو مستقبل میں مہیا کی جانے والی یہ تین نئی جرمن ساختہ آبدوزیں 2027ء سے ملکی بحریہ کے استعمال میں آ جائیں گی۔ ان تین آبدوزوں سے قبل اسرائیل گزشتہ دو عشروں کے دوران جرمنی سے مجموعی طور پر چھ دیگر آبدوزیں پہلے ہی خرید چکا ہے۔