اسرائیلی دانشوروں کا آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ
22 اپریل 2011یہ مظاہرین علامتی طور پر Rothschild-Boulevard پر عین اُسی عمارت کے سامنے جمع ہوئے، جہاں 14 مئی 1948ء کو اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔ ان اسرائیلی دانشوروں نے فلسطین کے حق میں ایک اعلامیہ بھی جاری کیا ہے، جس پر دستخط کرنے والوں میں اسرائیل کے اعلیٰ ترین اعزازات حاصل کرنے والی 17 معروف شخصیات بھی شامل ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن مذاکرات گزشتہ چھ ماہ سے جمود کا شکار ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا ماننا ہے کہ امن کا قیام محض دو طرفہ مذاکرات سے ہی ممکن ہو سکتا ہے، جبکہ فلسطینی اب 20 سال پُرانے امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے مزید انتظار نہیں کرنا چاہتے اور اقوام متحدہ کی مدد سے اسی سال ستمبر میں اپنی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔
87 سالہ اسرائیلی فنکارہ حنا مارون کی پیدائش برلن کی ہے۔ وہ تل ابیب میں قائم اسرائیلی میوزیم Eretz کے سامنے کھڑی ہیں، جہاں 63 سال قبل اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان ہوا تھا اور جو ایک علامتی حیثیت رکھنے والی عمارت ہے۔ انہوں نے یہاں لاؤڈ اسپیکر پر فلسطین کی آزادی کے حق میں ہونے والے مظاہرے کے مخالفین کو مخاطب کر تے ہوئے کہا ’دونوں طرف کے عوام کی آزادی، جو ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہے، ایک اخلاقی ذمہ داری اور دونوں کے وجود کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہی ایک صورت ہے، دونوں ریاستوں کے ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار ماحول میں ہسمایوں کی طرح رہنے کی۔ میں اسرائیلی حکومت، یہاں کے عوام، اسرائیلی پارلیمان اور تمام دنیا کی حکومتوں اور عوام سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اسرائیل اور فلسطین دونوں ریاستوں کو تسلیم کریں‘۔
اسرائیل کے 50 نامور دانشوروں نے مل کر اُس اعلامیے پر دستخط کیے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں اقوام کی آزادی کے لیے فلسطینی علاقوں پر سے اسرائیل کے قبضے کا مکمل خاتمہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس اعلامیے کے دستخط کنندگان میں اسرائیلی تاریخ دان یہودا باور، پروفیسر Zeev Sternhell اور مصنف آموز اوُز بھی شامل ہیں۔
تل ابیب میں اس مظاہرے کا انعقاد 19 اپریل کو ہوا۔ اس روز یہودی Pessach یا Passover تہوار عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔ اس موقع پر یہودی اُس واقعے کی یاد مناتے ہیں، جسے وہ غلامی سے نجات کا دن مانتے ہیں۔ یہودیوں کے عقیدے میں اس روز حضرت موسیٰ نے مصر کے یہودیوں کو غلامی سے آزاد کرواتے ہوئے انہیں مصر سے نکلنے میں مدد فراہم کی تھی۔ اسرائیلی ماہر سیاسیات یارون ایز راخی نے اپنی پُرجوش تقریر میں کہا ’ ہم آج یہاں خاص طور سے Pessach کا تہوار منانے کے لیے آئے ہیں۔ اس کا مقصد اسرائیلی باشندوں پر عائد ذمہ داریوں کا اظہار ہے۔ ہمیں آزادی کے اس تہوار پر اپنے فلسطینی پڑوسیوں کی آزادی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے‘۔
تل ابیب منعقدہ اس مظاہرے کے موقع پر درجنوں انتہا پسند اسرائیلیوں نے مظاہرہ کرنے والے اسرائیلی دانشوروں پر لعنت ملامت کی اور انہیں نازی کہہ کر پکارا جبکہ اسرائیلی پولیس نے مظاہرے کے ان مخالفین کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں کی۔
رپورٹ: کلیمنز فیرن کوٹے/ کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی