اسرائیلی وزیر اعظم کے دورہ بھارت کی کیا اہمیت ہے؟
21 مارچ 2022اسرائیل کے وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی دعوت پر اپریل کے اوائل میں بھارت کے اپنے پہلے سرکاری دورے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اس دوران اسرائیلی وزیر اعظم اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی اور ان کی حکومت کے دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کرنے کے ساتھ ہی ملک میں یہودی برادری سے بھی ملاقات کریں گے۔
نیفتالی بینیٹ نے بھارت اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کو ’بامعنی تعاون‘ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپریل کے پہلے ہفتے میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 30 ویں سالگرہ کے موقع پر بھارت کا دورہ کریں گے۔
بھارت نے سن 1992 میں اسرائیل کے ساتھ با ضابطہ سفارتی روابط قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس طرح اپریل میں ان تعلقات کے تیس برس مکمل ہو رہے ہیں۔ نیفتالی بینیٹ 2 اپریل کو نئی دہلی پہنچیں گے۔ ان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی دعوت پر وہ بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں۔
کن امور پر تعاون کی توقع ہے
اسرائیلی وزارت عظمی کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گيا، ’’مجھے اپنے دوست، وزیر اعظم مودی کی دعوت پر بھارت کا پہلا سرکاری دورہ کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے اور ہم مل کر اپنے ملکوں کے تعلقات کی رہنمائی جاری رکھیں گے۔‘‘
دونوں رہنماؤں کی پہلی ملاقات گزشتہ اکتوبر میں گلاسگو میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کی کانفرنس کے موقع پر ہوئی تھی۔ وہیں مودی نے بینیٹ کو بھارت کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ دورہ دو اپریل سے پانچ اپریل کے درمیان چار روز کا ہو گا۔
اسرائیلی وزارت عظمی کے دفتر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گيا کہ اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان، ’’اسٹریٹیجک اتحاد کو مضبوط کرنے کے ساتھ ہی اسے آگے بڑھانا اور دو طرفہ تعلقات کو مزید وسعت دینا ہے۔‘‘
حکومت کے میڈیا مشیر کے مطابق اس کے علاوہ دونوں رہنما معیشت، تحقیق و ترقی، زراعت اور اختراعی شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال کریں گے۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان برسوں سے، دو طرفہ تعلقات کا دائرہ دفاعی تعاون پر مرکوز رہا ہے اور اسرائیل بھارت کو اہم دفاعی تکنیک مہیا کرتا رہا ہے۔ خاص طور پر کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سینسرز کی تعیناتی اور شورش کنٹرول کرنے میں اس نے بھارتی حکام کی کافی مدد کی ہے۔
بیان کے مطابق، ’’بہت سی چیزیں ہیں، جو ہم بھارتیوں سے سیکھ سکتے ہیں، اور ہم یہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم مل کر اپنے تعاون کو دوسرے شعبوں میں وسعت دیں گے، جدت، ٹیکنالوجی، سیکورٹی اور سائبر سے لے کر زراعت اور موسمیاتی تبدیلی تک۔‘‘
آسٹریلوی وزیر اعظم سے بات چيت
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پیر کے روز ہی اپنے آسٹریلوی ہم منصب اسکاٹ موریسن کے ساتھ ایک ورچوئل کانفرنس کی۔ اس موقع پر مودی نے کہا کہ بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان معدنیات، پانی کے انتظام اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں اہم تعاون تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نے کہا، ’’ہمارا تعاون آزاد، کھلے اور شمولیاتی ہند۔بحرالکاہل کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ جامع اقتصادی تعاون کے معاہدے کے لیے بات چیت کا جلد اختتام بھی معاشی تعلقات کے لیے کلیدی حیثیت کا ضامن ہے۔‘‘
ادھر آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے یوکرین کی صورتحال کے بارے میں کہا کہ روس کو یوکرین پر اس کے ’’خوفناک‘‘ حملے کے بعد ہونے والے المناک جانی نقصان کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کی ضرورت ہے۔
موریسن نے یوکرین کے بحران پر کواڈ ممالک کے رہنماؤں کی حالیہ میٹنگ کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اس میٹنگ نے ہند۔بحرالکاہل میں جو ’’مضمرات اور نتائج‘‘ ہو سکتے ہیں اس پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع فراہم کیا۔ انہوں نے کہا، ’’واضح طور پر ہم یورپ کی خوفناک صورتحال سے پریشان ہیں حالانکہ ہماری توجہ انڈو پیسیفک پر مرکوز ہے۔‘‘
یاد رہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے حوالے سے بھارت کی پوزیشن اس کے اتحادیوں سے مختلف ہے اور بھارت عملی طور پر روس کی حمایت کر رہا ہے۔ تاہم اس کے باوجود امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا نے بھارت کے موقف پر نکتہ چینی کے بجائے اس کی مجبوریوں کو سمجھنے کی بات کہی ہے۔
گزشتہ روز ہی جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدہ اپنا دو روزہ دورہ بھارت ختم کر کے واپس گئے ہیں اور اس کے ایک دن بعد آسٹریلوی وزیر اعظم گفتگو ہوئی ہے۔ اس کے فوری بعد اسرائیل کے وزیر اعظم بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں۔