اسلام آباد ریلی: سخت تقاریر عمران خان کی رہائی میں معاون؟
9 ستمبر 2024جیل میں قید سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے کل بروز اتوار ملکی دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات سنگجانی میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا، جس میں پارٹی لیڈران نے عمران خان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
اس جلسے کا انعقاد تاخیر کا شکار رہا تھا۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق متعلقہ حکام سکیورٹی خدشات کو وجہ بناتے ہوئے اس کا اجازت نامہ منسوخ کرتے رہے تھے۔ بالآخر پی ٹی کو اسے اتوار کے روز شام چار سے سات بجے تک منعقد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ تاہم مقامی میڈیا میں حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ جلسے کا اختتام مقررہ وقت پر نہیں ہوا، جس کے بعد پولیس کو اس کے شرکاء کو منتشر کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔
اسلام آباد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس دوران جھڑپوں میں پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا اور پولیس کی جانب سے کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی نے اس جلسے سے خطاب کیا، جہاں بالخصوص صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سخت لہجہ اختیار کیا۔
لیکن کیا پی ٹی آئی کے لیڈران کا یہ رویہ اور لائحہ عمل عمران خان کی رہائی کے لیے مددگار ثابت ہوگا؟
علی امین گنڈا پور نے کیا کہا؟
جلسے سے خطاب کے دوران علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ عمران خان کے وکلا کے مطابق پی ٹی آئی کے بانی رہنما کے خلاف تمام کیسز کا فیصلہ ان کے حق میں ہو چکا ہے، ''اس لیے اگر ایک دو ہفتے میں قانونی طور پر عمران خان کو رہا نہ کیا گیا تو ہم عمران خان کو خود رہا کرا لیں گے۔‘‘
انہوں نے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا، ''میں آپ کی قیادت خود کروں گا اور پہلی گولی میں کھاؤں گا۔ اب پیچھے مت ہٹنا کیونکہ اگر ہم پیچھے ہٹے تو نہ دوبارہ ایسا موقع ملے گا، نہ دوبارہ ایسا لیڈر ملے گا۔‘‘
انہوں نے پاکستانکے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان کا حوالہ بھی دیا، جس میں پاکستان مسلم لیگ ن کے لیڈر نے عمران خان کے ملٹری ٹرائل کی طرف اشارہ دیا تھا۔ اس کے ردعمل میں گنڈا پور نے خواجہ آصف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی عمران خان کا ملٹری ٹرائل نہیں کر سکتا۔
انہوں نے ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر بھی تنقید کی اور کہا کہ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ان کا اب سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے۔
اس دوران انہوں پھر خواجہ آصف کے ایک اور بیان کا حوالہ دیا، جس میں وزیر دفاع نے دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ملکی سیاست میں کردار رہا۔ اس کے جواب میں گنڈا پور نے کہا، ''کیا جنرل فیض حمید ہمیں جہیز یا وراثت میں ملے تھے؟‘‘
فیض حمید عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان کی طاقتور انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ انہیں پاکستان آرمی ایکٹ کی مبینہ خلاف ورزیوں اور نجی ہاؤسنگ اسکیم 'ٹاپ سٹی‘ اسکینڈل میں ملوث ہونے کے باعث بارہ اگست کو فوجی تحویل میں لے کر ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ فیض حمید کی گرفتاری عمران خان کے خلاف ایک نیا مقدمہ چلانے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
عمران خان سن 2022 میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ اختلافات کے بعد سے ملک کے سب سے طاقتور ادارے، فوج کے سامنے کھڑے ہیں۔ تب انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور اب انہیں متعدد کیسز مین قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔
عمران خان کے بقول ان کے خلاف یہ تحریک جرنیلوں نے منظم کی تھی جبکہ فوج ابھی تک اس الزام کی تردید کر رہی ہے۔ عمران خان سابق جرنیلوں اور موجودہ فوجی قیادت کے خلاف کھل کر سامنے آئے ہیں۔
اتوار کے جلسے میں گنڈا پور نے بھی اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ''اپنے ادارے کی اصلاح کریں۔ اگر آپ نے نہیں کی تو ہم کریں گے۔ یہ ہماری فوج ہے اور اس میں ہمارے بھائی ہیں۔‘‘
انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ پی ٹی آئی کا اگلا جلسہ لاہور میں ہو گا۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا، ''عمران خان ایک حقیقت ہیں اور سب کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ''نوے کی دہائی نہیں ہے کہ آپ کسی کو مائنس کر لیں۔ 'مائنس عمران خان‘ سیاست ممکن نہیں۔‘‘
تجزیہ کاروں کی رائے
پی ٹی آئی لیڈران کی ان تقاریر کے حوالے سے ڈی ڈبلیو نے دو سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے لی اور پوچھا کہ کیا اس لائحہ عمل سے عمران خان کی رہائی کا راستہ ہموار کرنے میں مدد ملے گی۔
سیاسی تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران کہا کہ اس قسم کی تقریروں سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا اور اس سے عمران خان کی رہائی میں کوئی مدد نہیں مل سکے گی۔
ان کا کہنا تھا، ''میرے خیال میں عدالتوں کے معاملات عدالتوں میں طے ہونے چاہییں اور باقی سیاسی اختلافات کو پارلیمنٹ میں سیاستدانوں کو سلجھانا چاہیے، لیکن اس طرف کوئی نہیں آ رہا۔ بلکہ زیادہ زور دباؤ بڑھانے کی طرف ہے۔ لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر اس طرح کے جلسوں سے دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا۔‘‘
سیاسی تجزیہ کار سلمان عابد کی رائے میں ''عمران خان اس وقت تک جیل سے باہر نہیں آ سکتے جب تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے معاملات طے نہیں پا جاتے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''اسلام آباد کا جلسہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس جلسے میں اسٹیبلشمنٹ مخالف تقاریر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی توجہ پس پردہ ہونے والی پیش رفت سے توجہ ہٹانے کے لیے کی گئی ہوں۔‘‘
تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام آباد کے جلسے میں ''کئی تقریروں میں ریڈ لائن کراس کی گئی، جس کی وجہ سے پی ٹی آئی پر مزید پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''اسلام آباد کے جلسے سے پی ٹی آئی کا سیاسی جمود ٹوٹا ہے۔ اب لاہور کا جلسہ ہو جانے کا مطلب یہ ہو گا کہ (پی ٹی آئی) سیاسی جلسوں پر پابندی کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھا جا سکے گا۔‘‘