اسلامی دنیا مذاہب کی توہین کے خلاف اپنی مہم سے دستبردار
25 مارچ 2011اکثریتی طور پر مسلمان آبادی والی ریاستوں پر مشتمل اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے اس اقدام کے بعد جمعرات کی رات اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ ایک ایسے منصوبے کی منظوری دے دے، جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر مذہبی برداشت کی سوچ کو فروغ دینا ہے۔
سوئٹزر لینڈ میں جنیوا سے موصولہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ 57 مسلمان ریاستوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی سن 1998 سے لے کر اب تک جنیوا میں انسانی حقو ق کی کونسل اور نیویارک میں عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کی اس حد تک تائید حاصل کر چکی تھی کہ اس کونسل اور اسمبلی، دونوں نے ہی کثرت رائے سے مذاہب کی تذلیل کے خلاف کوششوں سے متعلق قراردادوں کی حمایت کر دی تھی۔
لیکن آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کی اس بارے میں مہم کی مغربی ریاستوں، خاص کر مغربی دنیا کے لاطینی امریکی اتحادیوں کی طرف سے سخت مخالفت بھی کی جا رہی تھی۔ تاہم جب OIC نے عالمی مذاہب کی توہین کے خلاف تحفظ سے متعلق اپنی دیرینہ سوچ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو مغربی ملکوں، ان کے لاطینی امریکی اتحادیوں اور افریقی ریاستوں کے ساتھ ساتھ خود مسلمان ملکوں نے بھی کسی رائے شماری کے بغیر ہی اس منصوبے کی حمایت کر دی، جس کے تحت اب مذاہب کے تحفظ کی بجائے توجہ کا مرکز مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا تحفظ ہو گا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں، جہاں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی نمائندگی پاکستان کر تا ہے، مذاہب کے تحفظ کے نظریے کے ناقدین کا کہنا تھا کہ عالمی ادارے کی سطح پر مذاہب اور عقائد کو ان کی توہین کے خلاف تحفظ فراہم کرنا اول تو بین الاقوامی قوانین اور آزادی اظہار کے اصولوں کی نفی ہو گا اور دوسرے یہ کہ ایسا کرنے سے مذاہب کی توہین سے متعلق بہت سخت قوانین کی منظوری اور نفاذ کا راستہ بھی کھلا رہے گا۔
عالمی مذاہب کو مہیا کیے جا سکنے والے ان کی توہین اور تذلیل کے خلاف تحفظ کی سوچ سے اختلاف رکھنے ملکوں کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے دنیا میں وہی کچھ ہو گا، جیسا ماضی قریب میں اسلامی ملک پاکستان میں دیکھنے میں آیا، جہاں مذہبی رواداری کے حامی دو اعتدال پسند سیاستدانوں کو قتل کر دیا گیا۔
انسانی حقوق کی کونسل کے رکن ایسے ملکوں کا موقف تھا کہ او آئی سی بارہ سال سے بھی زائد عرصے تک، جس مقصد کے حصول کے لیے کوششیں کرتی رہی، وہ اگر حاصل ہو بھی جاتا تو لازمی طور پر اس کا ایک منفی نتیجہ یہ بھی نکلتا کہ یوں ان ملکوں میں، جہاں ایک ہی مذہب کے پیروکاروں کو مقامی آبادی میں غالب اکثریت حاصل ہے، مذہبی اقلیتوں کو بہت زیادہ حد تک کنٹرول میں رکھا جاتا یا پھر انہیں ایسے حالات کا سامنا رہتا، جن میں حکومت یا اکثریتی آبادی کے جبر کے علاوہ مذہب کی زبردستی تبدیلی جیسے معاملات بھی دیکھنے میں آتے۔
اسلامی کانفرنس کی تنظیم انسانی حقوق کی کونسل میں کئی سال تک مذاہب کے ان کی توہین کے خلاف تحفظ کے لیے جو کوششیں کرتی رہی، ان کے حق میں ایسے واقعات کی مثالیں بھی دی جاتی رہیں، جن میں سن 2005 میں ڈنمارک کے ایک اخبار کی طرف سے شائع کیے جانے والے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکے بھی شامل تھے، جن کی اشاعت کے بعد مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے بہت سے ملکوں میں مغربی دنیا کے خلاف خونریز عوامی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ اسلامی ملکوں کے مطابق ایسے واقعات اسلام اور اسلامی عقائد اور شخصیات کی توہین تھے، جنہیں ختم ہونا چاہیے تھا۔
اس بارے میں او آئی سی اور ہیومن رائٹس کونسل کے رکن مغربی اور لاطینی امریکی ملکوں کے مابین اختلاف رائے کا خاتمہ حالیہ ہفتوں کے دوران پاکستانی اور امریکی سفارت کاروں کے درمیان ان مسلسل مشوروں کے بعد ممکن ہوا، جن کے نتیجے میں تین صفحات پر مشتمل ایک قرارداد کا مسودہ بھی تیار ہو گیا۔ اس نئے مسودے میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ ’دنیا بھر کے تمام خطوں میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف عدم برداشت، امتیازی سلوک اور ایسے پر تشدد رویے‘ پائے جاتے ہیں جن کا خاتمہ ضروری ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عدنان اسحاق