اسٹريٹيجک تعلقات: اوباما يورپ ميں
23 مئی 2011اوباما کے يورپ کے ابتدائی دوروں ميں ان کی شخصيت کی کشش متاثر کن تھی اور امريکہ اور بقيہ دينا کے تعلقات کے ايک نئے آغاز کی اميد اور جوش و خروش بھی پايا جاتا تھا۔ ليکن کم از کم يورپ اور امريکہ کے باہمی تعلقات ميں يہ جوش ٹھنڈا پڑ گيا ہے۔
امريکی صدر باراک اوباما نے سن 2009 ميں يورپ کے دورے ميں کہا تھا: ’’ميرے خيال ميں پچھلے سات يا آٹھ برسوں کے دوران امريکہ اور يورپ کے مابين خاصا تناؤ پيدا ہوا ہے۔ اور ميری حکومت کے اہداف ميں سے ايک اس تاريخی اتحاد کو دوبارہ تازہ کرنا بھی ہے۔‘‘
اوباما اپنے دور صدارت ميں اب تک چھ بار يورپ کا دورہ کر چکے ہيں اور چاہے وہ برلن ہو يا پراگ يا برسلز، ہر جگہ ہی اُن کا پر جوش استقبال کيا گيا ہے۔ ليکن ايک زمانےميں اميدوں کے مرکز اوباما اس دوران سياسی نشيبوں ميں اتر چکے ہيں اور يورپی اتحاديوں کے ساتھ امريکہ کے نئے تعلقات کا باب بھی ابھی تک اپنے آغاز کا محتاج ہے۔ ميونخ يونيورسٹی کے پروفيسر اور امريکی يورپی تعلقات کے ايک ديرينہ مبصر ويرنر وائڈين فيلڈ کہتے ہيں: ’’اس يورپی امريکی اتحاد کو اس طرح نئی روح بخشنا کہ عالمی سياست کے تمام امور پر اُن کے درميان رفاقت ہو، يہ اُس سے کہيں زيادہ قوت اور محنت کا متقاضی ہے جتنی کہ امريکی اور يورپی اس ميں اب تک صرف کرچکے ہيں۔‘‘
امريکہ اور يورپ تمام اہم عالمی امور ميں اس رفاقت کا دم بھرتے نہيں تھکتے ليکن سارے ہی تنازعات ميں امريکہ اور يورپ متفق نہيں ہيں۔ حال ہی ميں جب جرمنی نے ليبيا کے بارے ميں سلامتی کونسل ميں ووٹ دينے سے گريز کيا تو امريکہ ميں يہ کہا گيا کہ جرمنی اپنا ايک الگ راستہ اختيار کر رہا ہے۔ افغانستان ميں بھی دونوں ملکوں کی مشترکہ کارروائی کے باوجود اختلافات بھی پائے جاتے ہيں۔ اوباما نے بش دور کے اس بوجھ کو کاندھوں سے جھٹک ديا ہے کہ افغانستان ميں جنگ کا مقصد وہاں جمہوريت لانا ہے بلکہ اب صرف ايسے حالات پيدا کرنے کو مقصد کہا جا رہا ہے جن ميں القاعدہ اور طالبان وہاں سے امريکہ اور اُس کے اتحاديوں پر نئے حملوں کی تيارياں نہ کر سکيں۔
اوباما نے اپنی 19 مئی کی تقرير ميں عرب دنيا کو اميد دلانے کی کوشش بھی کی ہے ليکن اسرائيل اور فلسطينيوں کے درميان تنازعہ اُن کے دور صدارت ميں بھی اور زيادہ شديد ہو گيا ہے۔
رپورٹ: ڈانيل شيشکے وٹس / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک