اظہر کی ہوم گراؤنڈ پر کھیلنے کی آرزو
5 دسمبر 2011اظہرعلی اپنے کامیابیوں سے مزین کیریر میں جو گز شتہ برس جولائی میں انگلینڈ میں شروع ہوا تھا اب تک آسٹریلیا ،جنو بی افریقہ ، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز سمیت سمیت تمام سرکردہ ٹیموں کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے ہیں تاہم پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی وجہ سے وہ اب تک دیارغیر میں ہی ملک کی نمائند گی پرمجبوررہے ہیں۔
ڈوئچے ویلے کو دیے گئے انٹرویو میں اظہرعلی کا کہنا تھا کہ عرب امارات اوردوسرے ملکوں میں رہنے والے پاکستانی بیرون ملک میچز کے دوران ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہیں مگر اپنے ہوم گراؤنڈ اور کراؤڈ کے سامنے کھیلنے اور پرفارم کرنے کا الگ ہی مزہ ہے جس سے میں اب تک محروم رہا ہوں۔ کرکٹرز کے زیادہ ریکارڈز بھی اپنے ملکوں میں ہی بنتے ہیں اورپاکستانی عوام بھی انٹرنیشنل کرکٹ دیکھنے کی مستحق ہے اس لئے امید ہے کہ جلد پاکستان میں بین القوامی کرکٹ کی واپسی ہوگی۔
چھبیس سالہ اظہر نے سولہ ٹیسٹ میچ کھیل کر اب تک ایک سینچری اور گیارہ نصف سینچریاں سکور کی ہیں۔اس طرح وہ اپنے کیریئر کے پہلے ڈیڑھ برس میں نا صرف پاکستان کے سب سے کامیاب بیٹسمین بن کر ابھرے ہیں بلکہ انہیں آیی سی سی نے ایمرجنگ کرکٹرز آف دی اییر کے لئے بھی نامزد کیا۔
اظہر کے مطابق اس مستقل مزاج کارکردگی کا سبب انکا ٹیم کی ضرورت کے مطابق کھیلنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں دوران بیٹنگ اپنی ذاتی کارکردگی کے متعلق نہیں سوچتا اور ٹیم کی ضرورت کے مطابق پارٹنرشپ قائم کرنے میں یقین رکھتا ہوں اوراسی میں انفرادی طور پربھی رنز بن جاتے ہیں۔
اظہر علی کا تعلق لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون کے ایک تعلیم یافتہ خاندان سے ہے۔ انکے والد پرو فیسر ہیں اور مقامی کالج میں پڑھاتے ہیں تاہم اظہرعلی نے آٹھویں جماعت کے بعد ہی کتاب، قلم چھوڑ کرگیند بلا اٹھا لیا تھا۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ وہ گھر والوں کی تقلید تونہ کر سکے مگر اب کرکٹ میں کس کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں تو اظہر کا کہنا تھا کہ وہ اپنا کسی سے موازنہ نہیں کرتے مگر ہاشم آملہ اور ژاک کیلس کی بیٹنگ انہیں پسند ہے۔ میں ایسا کھلاڑی بننا چاہتا ہوں جس سے مخالف ٹمیں خوفزدہ رہیں۔
اظہر علی کے بقول انہوں نے سری لنکا کے خلاف اپنے کیریر کی پہلی ٹیسٹ سکور کرکے ایک بڑی نفسیاتی رکاوٹ عبور کرلی ہے۔ میں نے اس سینچری کے لیے چھ سیریز تک انتظار کیا اور اب خواہش ہے کہ اب ہر سیریز میں کم از کم ایک سینچری ضرور بنانا چاہتا ہوں۔
اظہر پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کے اسی نظام کی پیدا وارہیں جسےعمران خان سمیت کرکٹ پنڈتوں کی اکثریت اس حد تک فرسودہ خیال کرتی ہے کہ کھلاڑیوں کی سلیکشن میں بھی فرسٹ کلاس کرکٹ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ تاہم اظہراسی سسٹم کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے اور کہتے ہیں پاکستان میں خاص طورپرپنجاب کی مشکل وکٹوں پر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کے بعد کئی بار ٹیسٹ کرکٹ آسان لگتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ کرکٹ مشکل ضرور ہے مگر پاکستانی فرسٹ کلاس کرکٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ون ڈے کرکٹ نہ کھیلنے کی بابت اظہر علی کہتے ہیں کہ فی الحال میری توجہ صرف ٹیسٹ کرکٹ پر مرکوز ہے مگر ون ڈے کرکٹ میں بھی اگر سلیکٹرز نے موقع دیا تو ٹیسٹ جیسی کارکردگی دکھانے کی کوشش کروں گا۔
اظہر علی کی اگلی منزل اب ڈھاکہ اور چٹاگانگ ہے جہاں انہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف نو دسمبر سے شروع ہونے والی ٹیسٹ سیریز کھیلنا ہے۔ اس حوالے سے علی کہتے ہیں کہ بنگہ دیش کی ٹیم کو ون ڈے سیریز میں کامیابی کے باوجود ٹیسٹ سیریز میں آسان نہیں لیا جا سکتا کیونکہ بنگلہ دیش کی کنڈیشنز مشکل ہیں اور ویسے بھی بیٹنگ ایک ہی گیند کا کھیل ہے۔
رپورٹ: طارق سعید، لاہور، پاکستان
ادارت: عابد حسین