’افغان بچے لندن اور نیویارک کے بچوں سے زیادہ محفوظ‘
22 نومبر 2010نیٹو کے سینئر اہلکار مارک سیڈویل نے ایک برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں افغان بچوں کے اس خوف کو مسترد کر دیا، جس میں انہوں نے ملک میں سڑکوں پر بم دھماکوں کی وجہ سے خود کو غیر محفوظ سمجھنے کا اظہار کیا تھا ۔ مارک کا کہنا تھا کہ افغانستان کے دارلحکومت کابل اور باقی چند بڑے شہروں کی سڑکوں پر بم دھماکوں کے خطرات بہت کم ہیں اور یہ بچے شاید نیویارک، لندن ، گلاسکو اور اس جیسے بڑے شہروں کے مقابلے میں اپنے ملک میں زیادہ محفوظ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افغان معاشرے میں خاندان کا کردار بہت اہم ہےاور افغانستان کے شہروں میں بھی بچوں کے لئے فضا ویسی ہی مانوس ہوتی ہے، جیسے کہ دیہات میں۔
دوسری جانب بچوں کے لئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ نے سیڈویل کے اس دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے گمراہ کن قرار دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اعداد وشمار کے مطابق ملک میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ایسی بیماریوں کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، جن کا آسانی سے علاج کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ نیویارک، لندن یا گلاسکو میں رہنا زیادہ خطرناک ہے تو وہ غلط ہے اور یہ کہ افغانستان میں رہنا غیر محفوظ اور خطرناک ہے۔
بچوں کے لئے افغانستان کتنا محفوظ ہے، اس کا اندازہ اقوام متحدہ کی جانب سےجاری کی گئی رپورٹوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں جاری جنگ میں سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے ہیں۔ ستمبر 2008 سے اگست 2010 تک تقریباً 1795 بچے یا تو اس جنگ میں مارے گئے یا پھر زخمی ہوئے۔
اقوام متحدہ ہی کے ادارے یونیسف کے مطابق افغانستان میں بچوں کی شرح اموات دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق افغان جنگ میں عورتوں کی شرح اموت میں چھ جبکہ بچوں کی شرح اموات میں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ مہینے ہی افغانستان کے صوبے نیمروز میں ایک اسکول بس سڑک کے کنارے رکھے بم سے ٹکرا گئی، جس سے آٹھ بچوں سمیت نو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ شدت پسندوں کی جانب سے ملک میں اسکول جانے والی بچیوں کے چہروں پر تیزاب پھینکنےکے واقعات بھی اکثر سامنے آتے رہتے ہیں جبکہ خوشحال گھرانوں کے بچوں کو تاوان کے لئے اغوا کرنے اور تاوان ادا نہ کرنے کی صورت میں انہیں جان سے مار دئے جانے کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: امجد علی