افغان جنگ درست سمت جا رہی ہے، باراک اوباما
17 دسمبر 2010افغان جنگ کی حکمت عملی کا ایک سالہ جائزہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے اس حوالے سے پاکستانی پیشرفت کو سست قرار دیا۔ امریکی صدر نے افغان جنگ کے دوران پاکستان کے تعاون کو سراہتے ہوئے کہا،’ پیش رفت تیزی سے نہیں ہو رہی، اس لئے ہم پاکستانی رہنماؤں سے اصرار کریں گے کہ وہ قبائلی علاقوں میں موجود انتہا پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں کو جلد از جلد ختم کریں۔‘
باراک اوباما نے تصدیق کی کہ آئندہ سال وہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ افغان جنگ میں اپنے اہم اتحادی ملک پاکستان کے ساتھ تعاون کریں گے،’ ہم پاکستان میں شہری اداروں کو مضبوط بنانے کے لئے اپنی سرمایہ کاری میں تیزی لائیں گے تا کہ پاکستانی شہریوں کا معیارزندگی مزید بہتر ہو سکے۔‘
جمعرات کو افغان جنگ کے بارے میں ایک سالہ جائزے کے اہم نکات بیان کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ان کا جنگی منصوبہ درست سمت گامزن ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ افغانستان میں جو تبدیلی آئی ہے، وہ نہ صرف کمزور ہے بلکہ وہ الٹی بھی ہو سکتی ہے۔ باراک اوباما کے مطابق افغان جنگ میں مثبت پیشرفت کے نتیجے میں جولائی سے امریکی فوجیوں کی واپسی کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔ افغان جنگ کی حکمت عملی کے مطابق سن 2014ء تک افغانستان میں سکیورٹی امور کی تمام تر ذمہ داریاں افغان حکام اورعوام کے سپرد کردی جائیں گی۔
باراک اوباما نے کہا ہے کہ افغانستان میں تیس ہزار اضافی امریکی فوجی تعینات کرنے سے وہاں موجود القاعدہ نیٹ ورک کمزور ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ القاعدہ کے کئی اہم رہنما ہلاک کر دئے گئے ہیں اورانہیں اپنے حملوں کوعملی جامہ پہنانے کے لئے انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔
افغان جنگ کی حکمت عملی پر امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کی جائزے کے اہم نکات منظرعام پرآنے کے بعد مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہ آندرس فوگ راسموسن نے کہا،’ ہماری حکمت عملی مضبوط ہے اور ہمارے پاس وہ تمام وسائل موجود ہیں، جن کی مدد سے ہم مطلوبہ اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان میں آہستہ آہستہ ایسا ماحول پیدا کر رہے ہیں، جس سے وہاں کے مقامی سکیورٹی ادارے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کمیرون کے پریس دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا،’ ہم بھی اس بات سے متفق ہیں کہ تمام شہری اور عسکری ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں پائیدار اور ساز گار سیاسی حل تلاش کیا جائے۔‘
اسلام آباد میں واقع قائد اعظم یونیورسٹی سے وابستہ شعبہ سکیورٹی سٹڈیز کے پروفیسر رفعت حسین نے کہا ،’ جائزہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان میں القاعدہ نیٹ ورک اب کافی کمزور ہو چکا ہے تاہم القاعدہ کے ہم خیال گروہ، جیسا کہ حقانی اور ان کے دیگر مقامی حمایتی گروہ اب بھی پریشانی کا باعث ہیں۔ میرے خیال میں امریکہ پاکستان کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ اب کسی بھی ایسے گروہ کو دوبارہ طاقت جمع نہ کرنے دی جائے، جس سے وہ ایک مرتبہ پھر مضبوط قوت نہ بن جائیں۔‘ انہوں نے تاہم کہا کہ پاکستانی حکومت کے وعدوں کے باوجود وہ ان گروہوں کے خلاف پاکستانی عسکری کارروائی مستقبل قریب میں تو نہیں دیکھ سکتے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امتیاز احمد