1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان سے مذاکرات اچھا فیصلہ، پرویز مشرف

11 اکتوبر 2010

پاکستان کے سابق صدر اور ملکی فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے افغانستان میں قیام امن کے لئے طالبان باغیوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مکالمت ایک اچھا قدم ہے جو نتیجہ خیز ثابت ہونا چاہئے۔

https://p.dw.com/p/PbD8
پاکستان کے سابق صدر اور ملکی فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرفتصویر: AP

جنرل ریٹائرڈ مشرف نے اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں زور دے کر کہا کہ خطے میں قیام امن کے لئے طالبان عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل اعتدال پسند قوتوں کے ساتھ مذاکرات بہت ضروری ہیں۔

سابق پاکستانی صدر نے برطانوی دارالحکومت لندن میں امریکی نشریاتی ادارے ABC کے پروگرام This Week کو دئے گئے ایک انٹرویو میں ان خبروں کی تردید کی کہ پاکستانی فوج کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی افغان طالبان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

NO FLASH Taliban in Pakistan
پاکستانی فوج کو شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں مشکلات کا سامنا ہےتصویر: picture alliance/dpa

پرویز مشرف نے کہا: ’’میرا ہمیشہ ہی سے یہ خیال تھا کہ ہمیں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہئے اور طالبان سے مکالمت کے ذریعے کسی سمجھوتے تک پہنچنا ہی ایک دانشمندانہ فیصلہ ہو گا۔‘‘ پاکستانی فوج کے اس سابق سربراہ نے، جنہوں نے ابھی حال ہی میں اپنی ایک سیاسی جماعت بھی قائم کر لی ہے، مزید کہا کہ اب جبکہ ’’ہر کوئی اعتدال پسند طالبان قوتوں کے ساتھ مذاکرات پر راضی ہے، تو وہ ذاتی طور پر طالبان کے ساتھ بات چیت کی حمایت کے الزام سے جیسے بری ہوگئے ہیں۔‘‘

اپنے اس انٹرویو میں البتہ پرویز مشرف نے ان میڈیا رپورٹوں پر سخت برہمی کا اظہار کیا، جن کے مطابق پاکستان عسکریت پسندی سے کامیابی سے نمٹنے کے لئے زیادہ کوششیں نہیں کر رہا۔ سابق پاکستانی صدر نے کہا: ’’اسلام آباد پر ہمشہ یہی الزام لگایا گیا ہے کہ وہ طالبان اور شدت پسندی سے لڑنے کے لئے کافی عسکری اقدامات نہیں کر رہا۔ میں اس دعوے سے متفق نہیں ہوں۔ پاکستانی فوج کےتقریباﹰ دو ہزار ارکان اب تک اس جنگ میں اپنی جان دے چکے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ پاکستانی فوج کو شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں مشکلات کا سامنا ہے مگر یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ پاکستانی فوج عسکریت پسندوں کے خلاف کافی کارروائیاں نہیں کر رہی۔‘‘

افغانستان میں سابق صدر برہان الدین ربانی کو ابھی اتوار کے روز ہی اس امن کونسل کا سربراہ منتخب کر لیا گیا تھا، جو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں انہیں اپنی مسلح جدوجہد ترک کرنے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کرے گی۔ اسی امن کونسل کے تحت ان عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے گا، جو افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت کے خلاف ہیں۔

Hamid Karzai
افغانستان کے صدرحامد کرزئیتصویر: picture alliance / landov

سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف، جو اس وقت لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ وطن واپسی پر اپنی گرفتاری کے امکانات کے باوجود وہ سن 2013 میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے پہلے پاکستان چلے جائیں گے۔ پرویز مشرف کو سیاسی طور پر پاکستانی عوام کے ایک حصے کی طرف سے شدید مخالفت اور ناراضگی کا سامنا بھی ہے، جو ماضی کے اس ’’فوجی ڈکٹیٹر‘‘ کے ملکی سیاست میں کسی بھی طرح کے کردار کے خلاف ہیں۔ لیکن ان حقائق سے قطع نظر خود پرویز مشرف انٹرنیٹ کی فیس بک اور ٹوئٹر جیسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے ذریعے پاکستانی ووٹروں سے رابطے میں آ کر اپنی مقبولیت بڑھانےکی کوششوں بھی کر رہے ہیں۔

رپورٹ: سمن جعفری

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں