افغان طالبان سے مذاکرات اچھا فیصلہ، پرویز مشرف
11 اکتوبر 2010جنرل ریٹائرڈ مشرف نے اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں زور دے کر کہا کہ خطے میں قیام امن کے لئے طالبان عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل اعتدال پسند قوتوں کے ساتھ مذاکرات بہت ضروری ہیں۔
سابق پاکستانی صدر نے برطانوی دارالحکومت لندن میں امریکی نشریاتی ادارے ABC کے پروگرام This Week کو دئے گئے ایک انٹرویو میں ان خبروں کی تردید کی کہ پاکستانی فوج کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی افغان طالبان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
پرویز مشرف نے کہا: ’’میرا ہمیشہ ہی سے یہ خیال تھا کہ ہمیں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہئے اور طالبان سے مکالمت کے ذریعے کسی سمجھوتے تک پہنچنا ہی ایک دانشمندانہ فیصلہ ہو گا۔‘‘ پاکستانی فوج کے اس سابق سربراہ نے، جنہوں نے ابھی حال ہی میں اپنی ایک سیاسی جماعت بھی قائم کر لی ہے، مزید کہا کہ اب جبکہ ’’ہر کوئی اعتدال پسند طالبان قوتوں کے ساتھ مذاکرات پر راضی ہے، تو وہ ذاتی طور پر طالبان کے ساتھ بات چیت کی حمایت کے الزام سے جیسے بری ہوگئے ہیں۔‘‘
اپنے اس انٹرویو میں البتہ پرویز مشرف نے ان میڈیا رپورٹوں پر سخت برہمی کا اظہار کیا، جن کے مطابق پاکستان عسکریت پسندی سے کامیابی سے نمٹنے کے لئے زیادہ کوششیں نہیں کر رہا۔ سابق پاکستانی صدر نے کہا: ’’اسلام آباد پر ہمشہ یہی الزام لگایا گیا ہے کہ وہ طالبان اور شدت پسندی سے لڑنے کے لئے کافی عسکری اقدامات نہیں کر رہا۔ میں اس دعوے سے متفق نہیں ہوں۔ پاکستانی فوج کےتقریباﹰ دو ہزار ارکان اب تک اس جنگ میں اپنی جان دے چکے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ پاکستانی فوج کو شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں مشکلات کا سامنا ہے مگر یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ پاکستانی فوج عسکریت پسندوں کے خلاف کافی کارروائیاں نہیں کر رہی۔‘‘
افغانستان میں سابق صدر برہان الدین ربانی کو ابھی اتوار کے روز ہی اس امن کونسل کا سربراہ منتخب کر لیا گیا تھا، جو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں انہیں اپنی مسلح جدوجہد ترک کرنے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کرے گی۔ اسی امن کونسل کے تحت ان عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے گا، جو افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت کے خلاف ہیں۔
سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف، جو اس وقت لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ وطن واپسی پر اپنی گرفتاری کے امکانات کے باوجود وہ سن 2013 میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے پہلے پاکستان چلے جائیں گے۔ پرویز مشرف کو سیاسی طور پر پاکستانی عوام کے ایک حصے کی طرف سے شدید مخالفت اور ناراضگی کا سامنا بھی ہے، جو ماضی کے اس ’’فوجی ڈکٹیٹر‘‘ کے ملکی سیاست میں کسی بھی طرح کے کردار کے خلاف ہیں۔ لیکن ان حقائق سے قطع نظر خود پرویز مشرف انٹرنیٹ کی فیس بک اور ٹوئٹر جیسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے ذریعے پاکستانی ووٹروں سے رابطے میں آ کر اپنی مقبولیت بڑھانےکی کوششوں بھی کر رہے ہیں۔
رپورٹ: سمن جعفری
ادارت: مقبول ملک