’افغان وار ڈائری‘ ، امریکی صدر کا پہلا تبصرہ
28 جولائی 2010امریکی صدر باراک اوباما نےتاہم اس عمل پر تشویش کا اظہار ضرور کیا۔ اوباما نے کہا کہ افغان جنگ سے متعلق ان خفیہ معلومات کے منظرعام پر آنے کے بعد اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ افغان جنگ کی حکمت عملی تبدیل کرنے کا ان کا فیصلہ درست ہے۔
واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ ان حساس معلومات کے منظرعام پرآنے کے بعد وہ تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ اس سے افغانستان میں جاری اتحادی فوج کے آپریشن اور اہلکار متاثر ہو سکتے ہیں تاہم انہوں نےکہا کہ ان دستاویزات میں کوئی ایسی نئی بات شامل نہیں ہے، جو عوام پہلے سےنہ جانتے ہوں۔
اگرچہ باراک اوباما نے افغان میدان جنگ سے متعلق ان خفیہ معلومات کے انکشاف کے عمل کو غیراہم قرار دیا ہے لیکن افغان حکومت نے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ واشنگٹن حکومت افغانستان میں باغی کارروائیوں کو ہوا دینے کی پاکستانی کوششوں کو نظر اندازکر رہی ہے۔ ان خفیہ معلومات میں افغان جنگ کے بارے میں جہاں کئی اہم باتیں عیاں کی گئی ہیں، وہیں یہ بات بھی شامل ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی ISI افغانستان میں عدم استحکام کے لئے طالبان باغیوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
افغان حکام نے کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت افغان جنگ کے حوالے سے ایک متنازعہ پالیسی پرعمل پیرا ہے، جس میں ملکی استحکام کو تباہ کرنے کی پاکستانی کوششوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ماہرین کا خیال ہے کہ ان خفیہ دستاویزات کے منظرعام پر آنے کے باوجود امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پرکوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔
وکی لیکس نامی ایک ویب سائٹ پر ان خفیہ معلومات کو عام کرنےکے بعد امریکی ایوانوں میں بحث جاری ہے اور اسی دوران امریکی ایوان نمائندگان میں باراک اوباما کی طرف سے تجویز کی گئی افغانستان کے لئے ہنگامی فنڈنگ کی منظوری دے دی گئی ہے۔37 بلین ڈالرکی اس فنڈنگ سے اضافی تینتیس ہزار فوجی افغانستان روانہ کئے جائیں گے جبکہ اس رقم میں سے کچھ عراق پر بھی خرچ کی جائے گی۔
دریں اثناء پینٹاگون کے ترجمان جیف مورل نے کہا ہے 'افغان وار ڈائری' کے تحت خفیہ معلومات کے انکشاف کے حوالے سے فوج نے کڑی تحقیقات شروع کردی ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس عمل کے پیچھےکس کا ہاتھ ہے۔ ساتھ ہی پینٹاگون ان شائع شدہ خفیہ معلومات کی جانچ پڑتال بھی کررہا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عدنان اسحاق