افغانستان اور پاکستان میں جرمن پستول کی مانگ
13 اکتوبر 2009ایک جرمن ریڈیو نے انکشاف کیا ہے کہ 2006ء میں افغان وزارت داخلہ کے حوالے کئے گئے پستول افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غیرقانونی طور پر فروخت کئے جا رہے ہیں۔ جرمن والتھیر P1 پستول پاکستان اور افغانستان کی بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہے ہیں۔
جرمنی کے علاقائی سرکاری ریڈیو NDR نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2006ء میں یہ پستول افغان وزارت داخلہ کے حوالے کئے جانے کے بعد، اس بات پر نظر نہیں رکھی گئی کہ انہیں کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ برلن حکومت اور افغانستان میں امریکی سربراہی میں کام کرنے والی سیکیورٹی فورسز، دونوں نے ہی یہ پہلو نظرانداز کیا۔
جرمنی کی گرین پارٹی اور پولیس ٹریڈ یونین نے اس حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ جرمن وزارت دفاع نے NDR کو بتایا کہ افغانستان کی وزارت داخلہ کو والتھیر P1 پستول جنوری 2006ء میں دیے گئے تھے، جس کا مقصد وہاں کے سیکیورٹی اہلکاروں کو مسلح کرنا تھا۔
ان ہتھیاروں کے استعمال کی نگرانی کی ذمہ داری امریکی سربراہی میں ایک ٹیم کوسونپی گئی تھی۔
جرمن پارلیمان میں SPD کی جانب سے دفاعی امور کے ترجمان رائینر آرنولڈ نے اس خبر پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، 'برلن حکومت کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان کے سیکیورٹی اہلکار اپنے ملک میں سلامتی کی ذمہ داری سنبھالے، اس مقصد کے لئے انہیں تکنیکی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ اس مدد کو کس طرح استعمال کیا گیا، یہ جان کر مایوسی ہوئی۔'
والتھیر P1 پستول تقریبا 50 سال پرانے ہیں۔ تاہم زیادہ استعمال شدہ نہیں ہیں۔ NDR نے اسلحے کے تاجروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ سینکڑوں جرمن ہتھیار فروخت کے لئے دستیباب ہیں۔ دراصل یہ پستول علاقے میں انتہائی مقبول ہیں اور خریداروں سے اس کے لئے اضافی قیمت وصول کی جا رہی ہے۔ فی پستول 680 یورویعنی ایک ہزار امریکی ڈالر۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں تو اس گَن کی مانگ بھی زیادہ ہے اور قیمت بھی۔ وہاں اسے سولہ سو امریکی ڈالر میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
جرمن ریڈیو کے مطابق ان ہتھیاروں کی غیرقانونی فروخت میں افغانستان کے سابق اور موجودہ فوجی ملوث ہیں، جنہیں پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں بھی اسمگل کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ اسلحہ شمالی افغانستان بھی بھیجا جا رہا ہے، جہاں نیٹو کے مشن کے تحت جرمن فوجی بھی تعینات ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ ان ہتھیاروں کی افغانستان کو فراہمی کی منظوری 2005ء میں دی گئی تھی۔ برلن حکومت کا یہ فیصلہ انتہائی غیرمعمولی تھا کیونکہ اس کے اپنے ضوابط کے مطابق جرمن ہتھیار نیٹو کے غیررکن ممالک کو نہیں دیے جا سکتے۔ اس فیصلے کی منظوری اس وقت کی سوشل ڈیموکریٹس اور گرینز کی اتحادی حکومت نے دی تھی۔ یہ معاملہ ہتھیار افغانستان پہنچ جانے کے بعد پارلیمان کے سامنے آیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: کشور مصطفیٰ