افغانستان میں تعمیر نو کا عمل متاثر نہیں ہو گا، اقوام متحدہ
3 اپریل 2011امریکہ میں قرآن کی بے حرمتی کے خلاف افغانستان میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جس کی زد میں آ کر پہلے مزار شریف متعین یو این کے ساتھ کام کرنے والے غیر ملکی رضا کار اپنی جان گنوا بیٹھے۔ پھر اسی سلسلے میں ہفتہ کو قندھار میں دس عام شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ آج اتوار کو قندھار ہی میں مزید دو پولیس اہلکاروں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔
جنگ زدہ افغانستان کے لیے یو این کے خصوصی نمائندے Staffan de Mistura نے اتوار کو جاری کردہ بیان میں کہا، ’’ ان واقعات سے افغانستان جیسے حساس ملک میں اس نازک موقع پر اقوام متحدہ کی موجودگی اور کاموں پر اثر نہیں پڑے گا۔‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ مزار شریف میں یو این کی نذرآتش شدہ عمارت سے زندہ بچ جانے والے غیر ملکیوں کو کابل منتقل کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ وہاں سے مستقل انخلاء نہیں بلکہ صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ انہوں نے امریکہ میں قرآن کے نذر آتش کیے جانے کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
de Mistura نے مزار شریف میں پولیس کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہاں خون خرابے میں ملوث عناصر بیرون شہر سےپہنچے تھے۔ واضح رہے کہ اس ہنگامے کے دوران لگ بھگ تین ہزار مظاہرین جمعہ کی نماز کے بعد یو این کے کمپاؤنڈ کے باہر جمع ہوئے۔ بتایا جارہا ہے کہ ان میں سے دس یا پندرہ مسلح تھے جنہوں نے غیر ملکیوں کو نشانہ بنایا۔ اس واقعے کی ذمہ داری طالبان پر عائد کی جارہی ہے تاہم ان کے ایک ترجمان نے اس کی تردید کی ہے۔
مزار شریف میں مارے جانے والے یورپی شہریوں میں 33 سالہ سویڈش شہری Joakim Dungel ، ناروے کی 53 سالہ خاتون پائلٹ لیفٹنٹ کرنل Siri Skare اور رومانیہ کا ایک شہری شامل ہیں۔ مرنے والوں میں نیپال کے چار شہری بھی شامل ہیں جو کمپاؤنڈ میں سکیورٹی گارڈز کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے تھے۔
اقوام متحدہ کے ایک روسی اہلکار نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے اور مقامی زبان میں گفتگو کرکے اپنی جان بچائی تھی۔
دریں اثنا قندھار میں تازہ مظاہروں سے متعلق بتایا جارہا ہے کہ زخمی ہونے والے کم از کم 16 افراد میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کو گولیاں اور پتھر لگے ہیں۔ صوبائی حکومت کے ترجمان زلمئی ایوبی کے مطابق تمام زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عابد حسین