افغانستان میں طالبان باغی توقعات سے زیادہ مضبوط نکلے،راسموسن
1 جون 2010ماضی کے بارے میں اپنے تجربات بیان کرنے کے بعد راسموسن نے اس عزم کا اظہار کیا ہےکہ رواں سال نیٹو اور غیر ملکی افواج افغانستان میں عسکری اور سیاسی اعتبار سے کئی کامیابیاں حاصل کریں گی۔
راسموسن نے کینیڈین نشریاتی ادارے کو ٹیلی فون پر دئے گئے ایک انٹرویو میں کہا:’’ میرے خیال میں ہمیں ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ جب افغانستان میں طالبان باغیوں کے خلاف سن دو ہزار ایک میں بین الاقوامی سطح پر عسکری کارروائی شروع کی گئی تھی، اس وقت کے مقابلے میں، اب طالبان باغی زیادہ طاقت ور معلوم ہو رہے ہیں۔‘‘
راسموسن نے مزید کہا :’’ لیکن ہم اپنی عسکری کارروائی جاری رکھیں گے۔۔۔ اورسن دو ہزار دس میں ہماری کارروائیوں میں تسلسل نظر آئے گا کیونکہ نہ صرف ہم نے شورش زدہ علاقوں میں افواج کی تعداد بڑھا دی ہے بلکہ اس وقت افغانستان میں سیاسی عمل بھی درست سمت میں گامزن ہے۔‘‘
شمالی افغانستان میں ہزاروں امریکی فوجی تعینات کئے جا چکے ہیں۔ صوبہ قندھار طالبان باغیوں کا گڑہ سمجھا جاتا ہے، اس لئے یہاں غیر ملکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد تعینات کی گئی ہیں تاکہ بغاوت کو کچلنے کے لئے مؤثر حکمت عملی ترتیب اپنائی جا سکے۔ گزشتہ ماہ طالبان باغیوں نے قندہار میں واقع اتحادی افواج کےایک اہم فضائی اڈے سمیت بگرام میں ایک اہم فوجی چھاؤنی پر حملہ کیا تھا۔
دریں اثناء افغان صدر حامد کرزئی نے طالبان کے کچھ اعتدال پسند دھڑوں کو امن عمل میں شامل کرنے کے لئے ایک گرینڈ جرگہ بلوانے کی ضرورت پرزور دیا ہے ۔ نیٹو کے سربراہ راسموسن نے کہا ہے کہ ان کی افواج اس جرگے کے کامیاب انعقاد کے لئے مناسب سیکیورٹی فراہم کریں گی۔
آندریاس فوگ راسموسن نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا کہ طالبان باغیوں کو معلوم ہے کہ افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج اب درست سمت کی طرف گامزن ہیں اور اب وہ اپنی بھرپور صلاحتیوں کے مطابق جوابی حملہ بھی کریں گے کیونکہ طالبان کو علم ہے کہ اگر وہ یہاں ہار گئے تو یہ ان کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہو گا۔ تاہم راسموسن نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ بگرام اور قندہار کے حملے عسکری حوالے سے ایک ’ناکامی‘ تھے۔
رپورٹ : عاطف بلوچ
ادارت : عاطف توقیر