1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں عید کے موقع پر تین روزہ جنگ بندی کا آغاز

13 مئی 2021

افغانستان میں عید الفطر کے موقع پر تین روزہ فائر بندی پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔ طالبان کی اس فائر بندی پیشکش کے جواب میں ملکی صدر اشرف غنی نے بھی سکیورٹی فورسز کو فائر بندی کے احترام کا حکم دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3tLR9
Afghanistan Eid al-Fitr
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

رمضان کے مہینے کے اختتام پر مسلمانوں کے تہوار عیدالفطر کے موقع  پر ملک گیر سطح پر  تین روزہ فائر بندی کا اعلان طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں افغان صدر اشرف غنی نے ملکی سکیورٹی فورسز کو فائر بندی کے احترام کا حکم جاری کر دیا تھا۔ کابل حکومت نے اس موقع پر ایک بار پھر اپنا دیرینہ مطالبہ دہرایا کہ طالبان کو مستقل جنگ بندی کرنا چاہیے۔مستقبل کے افغانستان ميں شرعی نظام نافذ ہو گا يا امريکی طرز کی جمہوريت؟

شورش زدہ علاقے

دریں اثناء افغانستان کے انتہائی شورش زدہ علاقوں میں سے ایک، صوبے قندوز کے ایک صوبائی کونسلر نے بتایا کہ قندوز کے باشندے جنگ بندی سے بہت خوش ہیں اور  وہ عیدالفطر کسی بھی خوف کے بغیر منا سکتے ہیں۔ ایسے ہی جذبات و احساسات جنوبی صوبے غزنی کے باشندوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ غزنی کے کونسلر حمید اللہ نوروز کا بھی یہی کہنا تھا کہ غزنی کے رہائشیوں نے اس سال یہ عید پرامن طریقے سے منا سکنے پر مسرت کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے عید کی روایتی رسومات کی ادائیگی شروع کر دی ہے۔

طالبان عارضی فائر بندی پر تیار

Afghanistan Eid al-Fitr
عیدالفطر کی نماز سکیورٹی فورسز کے پہرے میں۔تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

صوبہ غزنی گزشتہ چند روز سے طالبان عسکریت پسندوں اور حکومتی فورسز کے مابین شدید لڑائی اور مسلح جھڑپوں کی زد میں رہا ہے۔ عسکریت پسندوں نے گزشتہ دنوں جنوبی شہر ہلمند تک میں گھس کر حملے کیے تھے جبکہ اس علاقے میں ماضی میں بہت زیادہ جھڑپیں نہیں ہوئی تھیں۔ تاہم مقامی کونسلر میر احمد خان کا کہنا ہے کہ اس علاقے سے بہت سے لوگ لڑائی اور جھڑپوں کے سبب اپنے گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کئی خاندان ایسے ہیں جن کے کسی نا کسی رکن کا مسلح جھڑپوں یا پُر تشدد کارروائیوں میں انتقال ہو چکا ہے یا وہ زخمی ہے اور اسے مکمل دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔

افغان صدر کی طرف سے طالبان کو مشروط سیز فائر کی پیش کش

 

Afghanistan Taliban Waffenstillstand
جون 2018 ء میں پہلی بار طالبان نے تین روزہ فائر بندی کا اعلان کیا تھا۔تصویر: JAVED TANVEER/AFP/Getty Images

فائر بندی کا پس منظر

یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ طالبان کی طرف سے فائر بندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ 2001 ء میں امریکی قیادت والی غیر ملکی فورسز کی افغانستان میں مداخلت اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان کی طرف سے اس نوعیت کی فائر بندی کی پہلی پیشکش جون 2018 ء میں کی گئی تھی۔ اس بار فائر بندی کے اعلان سے پہلے متعدد افغان صوبوں میں شدید جھڑپیں دیکھنے میں آئیں۔ طالبان نے متعدد صوبائی دارالحکومتوں، اضلاع ، فوجی اڈوں اور چیک پوائنٹس کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنایا۔ جنگ سے تباہ حال اس ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے سلسلے کا آغاز یکم مئی سے ہوتے ہی طالبان کے حملوں میں تیزی آ چکی ہے۔

افغانستان سےغیر ملکی افواج کا انخلا:جہادی سراُٹھا سکتے ہیں، ماہرین کا انتباہ

Taliban Afghanistan
ننگاہار صوبے میں 2018 ء میں فائر بندی کا اطلاق۔تصویر: Reuters/Parwiz

باقاعدہ فوجی انخلا

 

یکم مئی سے افغانستان متعینہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز سے ہی طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں یکدم تیزی آ گئی۔ ملکی سکیورٹی فورسز نے طالبان کے حملوں کو پسپا کرنے کی کوشش کی لیکن ملک کے دو اضلاع پر طالبان عسکریت پسندوں نے قبضہ کر لیا۔ مبصرین کے مطابق اس بات کے خطرات پائے جاتے ہیں کہ حالیہ حملے  طالبان کی سالانہ پر تشدد سرگرمیوں کا محض آغاز تھے۔ ماہرین ان خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ رواں سال ستمبر میں امریکی اور دیگر مغربی افواج کے مکمل انخلا کے بعد  طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوگا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مئی کے آغاز پر افغانستان میں تقریباﹰ 10 ہزار امریکی اور نیٹو فوجی موجود تھے۔ امریکی فوج نے یقین دلایا ہے کہ ستمبر تک تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔ منگل کو امریکی فوج کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس کے اندازوں کے مطابق افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کی مجموعی تعداد کے چھ سے 12 فیصد تک کا انخلا مکمل ہو گیا ہے۔

ک م / م م (ڈی پی اے)