افغانستان میں عید کے موقع پر تین روزہ جنگ بندی کا آغاز
13 مئی 2021رمضان کے مہینے کے اختتام پر مسلمانوں کے تہوار عیدالفطر کے موقع پر ملک گیر سطح پر تین روزہ فائر بندی کا اعلان طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں افغان صدر اشرف غنی نے ملکی سکیورٹی فورسز کو فائر بندی کے احترام کا حکم جاری کر دیا تھا۔ کابل حکومت نے اس موقع پر ایک بار پھر اپنا دیرینہ مطالبہ دہرایا کہ طالبان کو مستقل جنگ بندی کرنا چاہیے۔مستقبل کے افغانستان ميں شرعی نظام نافذ ہو گا يا امريکی طرز کی جمہوريت؟
شورش زدہ علاقے
دریں اثناء افغانستان کے انتہائی شورش زدہ علاقوں میں سے ایک، صوبے قندوز کے ایک صوبائی کونسلر نے بتایا کہ قندوز کے باشندے جنگ بندی سے بہت خوش ہیں اور وہ عیدالفطر کسی بھی خوف کے بغیر منا سکتے ہیں۔ ایسے ہی جذبات و احساسات جنوبی صوبے غزنی کے باشندوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ غزنی کے کونسلر حمید اللہ نوروز کا بھی یہی کہنا تھا کہ غزنی کے رہائشیوں نے اس سال یہ عید پرامن طریقے سے منا سکنے پر مسرت کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے عید کی روایتی رسومات کی ادائیگی شروع کر دی ہے۔
طالبان عارضی فائر بندی پر تیار
صوبہ غزنی گزشتہ چند روز سے طالبان عسکریت پسندوں اور حکومتی فورسز کے مابین شدید لڑائی اور مسلح جھڑپوں کی زد میں رہا ہے۔ عسکریت پسندوں نے گزشتہ دنوں جنوبی شہر ہلمند تک میں گھس کر حملے کیے تھے جبکہ اس علاقے میں ماضی میں بہت زیادہ جھڑپیں نہیں ہوئی تھیں۔ تاہم مقامی کونسلر میر احمد خان کا کہنا ہے کہ اس علاقے سے بہت سے لوگ لڑائی اور جھڑپوں کے سبب اپنے گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کئی خاندان ایسے ہیں جن کے کسی نا کسی رکن کا مسلح جھڑپوں یا پُر تشدد کارروائیوں میں انتقال ہو چکا ہے یا وہ زخمی ہے اور اسے مکمل دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔
افغان صدر کی طرف سے طالبان کو مشروط سیز فائر کی پیش کش
فائر بندی کا پس منظر
یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ طالبان کی طرف سے فائر بندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ 2001 ء میں امریکی قیادت والی غیر ملکی فورسز کی افغانستان میں مداخلت اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان کی طرف سے اس نوعیت کی فائر بندی کی پہلی پیشکش جون 2018 ء میں کی گئی تھی۔ اس بار فائر بندی کے اعلان سے پہلے متعدد افغان صوبوں میں شدید جھڑپیں دیکھنے میں آئیں۔ طالبان نے متعدد صوبائی دارالحکومتوں، اضلاع ، فوجی اڈوں اور چیک پوائنٹس کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنایا۔ جنگ سے تباہ حال اس ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے سلسلے کا آغاز یکم مئی سے ہوتے ہی طالبان کے حملوں میں تیزی آ چکی ہے۔
افغانستان سےغیر ملکی افواج کا انخلا:جہادی سراُٹھا سکتے ہیں، ماہرین کا انتباہ
باقاعدہ فوجی انخلا
یکم مئی سے افغانستان متعینہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز سے ہی طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں یکدم تیزی آ گئی۔ ملکی سکیورٹی فورسز نے طالبان کے حملوں کو پسپا کرنے کی کوشش کی لیکن ملک کے دو اضلاع پر طالبان عسکریت پسندوں نے قبضہ کر لیا۔ مبصرین کے مطابق اس بات کے خطرات پائے جاتے ہیں کہ حالیہ حملے طالبان کی سالانہ پر تشدد سرگرمیوں کا محض آغاز تھے۔ ماہرین ان خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ رواں سال ستمبر میں امریکی اور دیگر مغربی افواج کے مکمل انخلا کے بعد طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوگا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مئی کے آغاز پر افغانستان میں تقریباﹰ 10 ہزار امریکی اور نیٹو فوجی موجود تھے۔ امریکی فوج نے یقین دلایا ہے کہ ستمبر تک تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔ منگل کو امریکی فوج کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس کے اندازوں کے مطابق افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کی مجموعی تعداد کے چھ سے 12 فیصد تک کا انخلا مکمل ہو گیا ہے۔
ک م / م م (ڈی پی اے)