افغانستان: کم پیداوار کے باعث افیون کی قیمتوں میں اضافہ
9 مئی 2012یہ باتیں منگل کو افغانستان میں منشیات کے انسداد کے شعبے کے وزیر ضرار احمد مقبل عثمانی نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہیں۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ سکیورٹی اداروں کی کارروائیوں اور افیون کی فصل کو لگنے والی پھپھوندی کی وجہ سے خطّے کے ممالک میں افیون کی طلب پوری نہیں پا رہی، جس کی وجہ سے نہ صرف افیون کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں بلکہ پیداوار کم ہونے سے کاشتکاروں کی طرف سے مزاحمت میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔
عثمانی کا کہنا تھا کہ افیون کی مہنگے داموں فروخت کے نتیجے میں کاشتکاروں کے لیے افیون کی کاشت اور بھی زیادہ پُرکشش ہوتی جا رہی ہے اور یوں حکومت نے بھی منشیات کی پیداوار اور تجارت کے خلاف اپنے اقدامات تیز تر کر دیے ہیں۔
افغان دارالحکومت کابل میں انسداد منشیات وزارت کی عمارت پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں جبکہ عمارت کے اندر دیواروں پر ایسے پوسٹرز آویزاں کیے گئے ہیں، جن میں منشیات کے خلاف افغان حکومت کی جنگ کی عکاسی کی گئی ہے۔ روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے عثمانی نے کہا: ’’قیمتوں میں اس اضافے سے یقیناً ہم (حکومت) پر بھی دباؤ بڑھ جائے گا۔ افیون کی کاشت کا رجحان بڑھتا چلا جائے گا، کاشتکار حکومتی اقدامات کے خلاف مزاحمت کریں گے، امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا اور افغان سکیورٹی فورسز کے ارکان کے ہلاک یا زخمی ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔‘‘
افغانستان دنیا بھر میں ہیروئن کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والے مادے افیون کی 90 فیصد طلب کو پورا کرتا ہے۔ افیون کی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی باغیوں کو اپنی جنگی کارروائیاں جاری رکھنے میں مدد دیتی ہے جبکہ اِس کی تجارت کرنے والی شخصیات اور گروہ ایران، پاکستان اور وسطی ایشیا کی سابق سوویت جمہوریاؤں کے راستے اسمگل کی جانے والی کئی ٹن منشیات کی مدد سے سالانہ اربوں ڈالر کماتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب سن 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی فوجی دستوں کا انخلاء عمل میں آئے گا تو وہ اپنے ساتھ وہ پیسہ اور فضائی طاقت بھی لے جائیں گے، جو اب تک منشیات کے خلاف جنگ میں بھی استعمال ہو رہی ہے۔ ایسے میں افغان حکومت کو منشیات کے خلاف اپنی جنگ کے لیے مزید وسائل درکار ہوں گے۔
aa/hk (reuters)