اقتصادی ترقی کسی قوم کے خوشحال ہونے کا معیار ہو سکتی ہے؟
20 فروری 2020دنیا بھر کے مختلف ترقی یافتہ ممالک کے معاشروں میں قوم پرستی کو عروج حاصل ہو رہا ہے اور بعض پالیسی ساز حلقے بھی عالمگیریت اور کثیر النسلی کو اپنا ہدف بنانے سے گریز نہیں کر رہے۔ ایسی صورت حال میں خوشحالی کا اقتصادی ترقی کے ساتھ ربط و ملاپ پر دو ریسرچرز نے انگلیاں اٹھائی ہیں۔ انہوں نے معاشرتی خوشحالی کو پائیدار ترقی اور ماحولیاتی استحکام کی بنیاد قرار دیا ہے۔
جرمنی کے مشہور اقتصادی ادارے کیل انسٹیٹیوٹ برائے عالمی اقتصاد کی محققہ کاتارینا لیما ڈی مرنڈا نے 'گلوبل سلوشن انیشی ایٹیو‘ نامی ادارے کے سربراہ ڈینس سنوئر کی قیادت میں مکمل کی جانے والی ریسرچ میں خوشحالی کا ایک نیا ماڈل پیش کیا ہے۔ اس ریسرچ کا نام 'دی ری کپلنگ ڈیش بورڈ‘ رکھا گیا ہے۔ اس میں لوگوں کی معاشی ترقی کو ملکی سالانہ مجموعی قومی پیداوار سے علیحدہ کر کے دیکھا گیا ہے۔
اس نئے ماڈل میں اتفاق کیا گیا کہ اقتصادی ترقی کسی بھی قوم کے لیے بہت ضروری ہے لیکن یہ خوشحالی کا مکمل معیار ظاہر نہیں کرتی اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اُس قوم کے اندر ماحولیاتی استحکام کے ساتھ ساتھ با اختیار ہونے (empowerment) اور مجموعی یک جہتی کو بھی پرکھا جائے۔ اس تناظر میں دونوں محققین نے مختلف امور کو بھی خوشحالی کے ساتھ منسلک کیا ہے۔
ریسرچ میں با اختیار بنائے کے حوالے سے یہ پرکھا گیا ہے کہ کسی بھی قوم یا ملک میں مجموعی سماجی 'امپکٹ‘ کی کیفیت کیا ہے، اوسط عمر کتنی ہے، تعلیم پر توجہ کتنی مرکوز کی یا کرائی گئی ہے اور اس کے علاوہ حکومتی اقدامات سے لوگوں کے اعتماد کی سطح کیا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ کہ کسی بھی معاشرے کے افراد میں اعتماد برقرار رکھنے یا بحال کرنے کے اقدامات کے تناظر میں با اختیار بنانے والے اداروں اور قومی حکومت کا کردار کتنا اہم ہے۔
اسی طرح یک جہتی کے انڈیکس میں یہ شامل کیا گیا کہ کسی بھی قوم کے افراد میں اجنبیوں یا غیر ملکی افراد کی مدد کرنے کا جذبہ کتنا ہے اور وہ کس حد تک رقوم عطیہ کرنے کے جذبے کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں میں رضاکارانہ خدمات کا کتنا جذبہ ہے اور سال میں رضاکارانہ سرگرمیوں میں کتنا حصہ لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ افراد میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات کو استوار رکھنے کے علاوہ مشکل میں اُن کی مدد کرنے کی کتنی استطاعت ہے۔
محققین کے مطابق اس نئے ماڈل کے تحت گزشتہ چار دہائیوں کے دوران عالمگیریت اور تکنیکی ترقی نے کئی اقوام کی مجموعی سالانہ قومی پیداوار میں انتہائی بڑا اضافہ کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں، لوگوں میں بے اختیار ہونے اور سماج سے کٹ جانے کا احساس بھی بڑھا ہے۔ دونوں ریسرچر نے خاص طور پر سن 2007 سے سن 2017 کی دہائی کو ریسرچ میں فوکس کیا۔
اس نئے ماڈل کے تحت تیس ممالک کا جائزہ لیا گیا۔ امریکا، جرمنی اور برطانیہ کی سالانہ مجموعی ترقی کے حجم میں بہت زیادہ فرق نہیں دیکھا گیا لیکن با اختیار بنانے میں جرمن پیشرفت بقیہ دونوں ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ جرمنی کو اس معاملے میں نئے ماڈل کے تحت دوسرا، برطانیہ کو تیرہواں اور امریکا کو بیسواں مقام دیا گیا۔ اسی طرح سماجی یک جہتی میں جرمنی بارہویں، امریکا تیرہویں اور برطانیہ چودہویں نمبر پر رہے۔
(ہارڈی گراؤپنر) ع ح ⁄ ش ح