اقوام متحدہ کے پرچم تلے جنسی زیادتیاں، خصوصی اہلکار تعینات
24 اگست 2017نیو یارک سے جمعرات چوبیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق عالمی سطح پر گزشتہ کچھ عرصے سے ایسے الزامات کے سامنے آنے میں واضح اضافہ ہو چکا ہے کہ بدامنی اور مسلح تنازعات کے شکار مختلف علاقوں میں اقوام متحدہ کے امن دستوں کے ارکان عام انسانوں خصوصاﹰ بچوں سے جنسی زیادتیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔
جنوبی سوڈان کا مسلح سیاسی بحران، جنسی جرائم بلند ترین سطح پر
امن دستوں کی بچوں سے جنسی زیادتیاں، نئے شواہد
عراق: ساڑھے تین ملین سے زائد بچوں کی بقاء کو لاحق خطرات
اس بارے میں متاثرین کے حقوق کے تحفظ اور اس رجحان کی روک تھام کے لیے اس عالمی ادارے نے اب پہلی بار اپنے انتظامی ڈھانچے میں ایک منفرد فیصلہ کرتے ہوئے ایک خاتون کو اپنا خصوصی نمائندہ بھی مقرر کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے وعدہ کیا ہے کہ مختلف جنگ زدہ یا بحرانی علاقوں میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے اور امن دستوں کے فرائض انجام دینے والے جو فوجی تعینات کیے جاتے ہیں، جنہیں سروں پر نیلے ہیلمٹ پہننے کی وجہ سے عرف عام میں ’بلیو ہیلمٹس‘ کہا جاتا ہے، ان کی طرف سے جنسی زیادتیوں اور جنسی استحصال کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے گا۔
گوٹیرش نے کہا کہ اقوام متحدہ کے پرچم تلے کسی بھی طرح کے جنسی جرائم کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان امن فوجیوں کی طرف سے پہلے سے بحرانی حالات میں مسائل کے شکار عام شہریوں میں سے خاص طور پر کئی کم عمر افراد کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے متعدد الزامات گزشتہ برس وسطی افریقی جمہوریہ میں دیکھنے میں آئے تھے اور یہ پہلا موقع بھی نہیں تھا کہ امن فوجیوں پر ایسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
اس رجحان کی روک تھام اور متاثرین کے حقوق کے تحفظ کے علاوہ خود اقوام متحدہ کی سطح پر مکمل انصاف کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل گوٹیرش نے جس شخصیت کو پہلی بار خصوصی اہلکار نامزد کیا ہے، وہ ایک خاتون ہیں اور ان کا نام جین کونرز ہے۔
نئے قائم کیے گئے اس عہدے پر نامزد کردہ جین کونرز کا تعلق آسٹریلیا سے ہے اور وہ ’متاثرین کے حقوق کا دفاع کرنے والی اہلکار‘ کا کام کریں گی۔ اس نامزدگی سے پہلے تک کونرز سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے قانون اور پالیسی کے شعبے کی سربراہ کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اقوام متحدہ ایک عالمی ادارے کے طور پر اپنے امن فوجیوں کی طرف سے جنسی استحصال اور زیادتیوں کے واقعات کی چھان بین کے قابل تو ہے اور کسی بھی واقعے میں کسی فوجی کی طرف سے ایسے جرم یا جرائم کے ارتکاب کی اطلاع ملنے پر اسے اس کی تعیناتی کی جگہ سے واپس بھی بلا لیتا ہے۔
لیکن اس سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ایسے کسی بھی فوجی یا فوجیوں کے خلاف قانونی کارروائی کا اختیار صرف ان کے آبائی ممالک کو ہی حاصل ہوتا ہے اور ایسے اکثر ملزم سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔
اب جنسی نوعیت کے ایسے حملوں، زیادتیوں یا استحصال کے واقعات کی صورت میں متاثرین کو عالمی ادارے کی ایک خصوصی اہلکار کی صورت میں ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک ’محافظ‘ دستیاب ہو گئی ہے۔
جین کونرز ماضی میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کے لیے بھی کام کر چکی ہیں اور اس سے قبل وہ اسی عالمی ادارے کے اقتصادی اور سماجی امور کے شعبے میں خواتین کے حقوق کی سربراہ بھی رہ چکی ہیں۔