الیکٹرانک جاسوسی: جرمن پارلیمان امریکا پر برہم
16 جنوری 2014جرمن پارلیمان میں اس موضوع پر خطاب کرتے ہوئے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے بُرک ہارڈ لِشکا نے کہا کہ اتحادی پارٹنرز اور دوستوں کے ساتھ مخالفین کا سا رویہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا، ’’یہ کہ امریکا نے ایسا کیا ہے، پریشان کن، باعث تکلیف اور ناقابل قبول بات ہے۔‘‘
اکثر جرمن سیاستدانوں کو اب تک امید تھی کہ امریکا کی طرف سے جرمنی میں جاسوسی اور ڈیٹا جمع کرنے پر مسلسل عوامی غصے کو ایک ایسے معاہدے کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے، جس کے تحت برلن اور واشنگٹن ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی نہ کرنے کے پابند ہوں۔ لیکن اب عدم جاسوسی کے ایسے کسی باہمی معاہدے سے متعلق مذاکرات ناکام رہنے کا خطرہ کافی زیادہ ہے۔
فریقین کے مذاکراتی نمائندوں کے قریبی ذرائع کے مطابق امریکی خفیہ ادارے ایسا کرنے پر آمادہ نہیں کہ مستقبل میں جرمنی میں سرکردہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی الیکٹرانک جاسوسی نہ کی جائے۔
ان اطلاعات کے سامنے آنے کے بعد برلن میں وفاقی پارلیمان بنڈس ٹاگ نے اپنے ردعمل کا اظہار یوں کیا کہ ایوان میں اس پر کھل پر بحث ہوئی اور ارکان کی بہت بڑی تعداد نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کے رویے پر ناامیدی اور غصے کا اظہار یکساں شدت سے کیا۔
چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے رکن اور وزارت داخلہ میں پارلیمانی امور کے سیکرٹری گُنڑ کرِنگز نے کہا، ’’جرمن سرزمین پر ہمارے پارٹنرز پر بھی جرمن قوانین کا بھرپور اطلاق ہو گا۔ یہ بات مذاکرات کا موضوع نہیں ہو سکتی۔‘‘
اس بحث کے دوران موجودہ وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے میشائل ہارٹمان نے سوال اٹھایا کہ آیا امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی NSA کے سربراہ الیکسانڈر کی رائے میں چانسلر میرکل پر القاعدہ کے ساتھ قربت کا شبہ کیا جا سکتا ہے؟
بنڈس ٹاگ کے اس اجلاس میں امریکی حکومت کے اس رویے پر خاص طور پر سبھی جماعتوں کے پارلیمانی گروپوں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی کہ واشنگٹن حکومت ابھی تک جرمنی میں اس الیکٹرانک جاسوسی کی نوعیت اور اس کے دائرہ کار کے بارے میں برلن حکومت کے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں دے رہی۔
گرینز پارٹی کے سرکردہ رہنما کرسٹیان شٹروئبلے نے کہا کہ برلن حکومت نے این ایس اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی کو بھی چھ ماہ سے بھی زائد عرصہ قبل جو بہت سے سوال پوچھے تھے، ان دستاویزات کا آج تک واشنگٹن یا لندن کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔
اس بارے میں پارلیمانی ارکان کی تاحال کوئی متفقہ سوچ سامنے نہیں آئی کہ جرمنی کو امریکا پر دباؤ کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔