امتحانات میں بد عنوانی اور پنجاب کا تعلیمی نظام
13 نومبر 2011پنجاب حکومت کی درخواست پر آج کل اس اسکینڈل کی عدالتی تحقیقات جاری ہیں۔ متعلقہ حکام کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے اور امتحانی نتائج منسوخ کے جا چکے ہیں۔ یاد رہے کہ غلط امتحانی نتائج کے خلاف ہزاروں طلبہ نے مظاہرے کیے تھے،گوجرانوالہ کے تعلیمی بورڈ کی عمارت کو آگ لگا دی تھی جبکہ ایک بچے نے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی بھی کر لی تھی۔
آج کل مینوئل طریقے سے گیارہویں جماعت کے نتائج از سر نو مرتب کیے جا رہے ہیں۔ لاہور کے تعلیمی بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ بخش ملک کے مطابق اب ان نتائج کا اعلان انیس نومبر کو کیا جائے گا۔
ڈوئچے ویلے کو پنجاب کے تعلیمی بورڈز کی کمپیوٹرائزیشن سے متعلق اہلکاروں سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت نے صوبے میں آٹھوں تعلیمی بورڈز میں بدعنوانی کی بڑھتی ہوئی شکایات کے بعد ان کے امتحانی نظام کو کمپیوٹرائز کرنے کے لیے ایک آئی ٹی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ماجد نعیم کی خدمات حاصل کی تھیں۔
امتحانی نظام کی کمپیوٹرائزیشن کے بعد رشوت لے کر مقررہ تاریخ کے بعد داخلہ فارم جمع کرانا، من پسند افراد کا مرضی کے امتحانی سینٹر حاصل کرنا، کسی طالب علم کے لیے اپنے پرچے کی مارکنگ کرنے والے ممتحن کا پتہ چلانا اور کسی نجی تعلیمی ادارے کے لیے اپنے طلبہ کی بہتر کامیابی کے لیے عملے کی ملی بھگت سے کسی سینٹر کو خرید لینا قریب قریب ناممکن ہو گیا تھا۔ اس وجہ سے کرپشن مافیا کمپیوٹرائزیشن کے عمل کو اپنے کاروبار میں بڑی روکاوٹ سمجھتی تھی۔
سابق سیکرٹری تعلیم احد چیمہ کے مطابق تعلیمی بورڈز کے ملازمین نے کمپیوٹرائزڈ اور شفاف امتحانی نظام کو ناکام بنانے کے لیے بد دیانتی سے کمپیوٹر سسٹم میں رکاوٹیں پیدا کیں، جن سے اس بحران نے جنم لیا۔ دوسری طرف اس بحرانی دور میں لاہور کے تعلیمی بورڈ میں سیکرٹری کے طور پر فرائض انجام دینے والے مشتاق احمد طاہر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یہ درست نہیں ہے کہ بورڈ کے ملازمین نے جان بوجھ کر کمپیوٹرائزیشن کے عمل کو ناکام بنایا ہے۔ ان کے مطابق امتحانی نظام میں استعمال کیے جانے والے سافٹ ویئر میں بعض خامیاں تھیں اور وہ کئی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے فنی تعلیمی بورڈ پنجاب کے کمپیوٹر سیکشن کے انچارج محمد عبداللہ نے بتایا کہ امتحانی نتائج کو شفاف طریقے سے نہایت قلیل مدت میں آسانی سے تیار کرنے کے لیے کمپیوٹر کا استعمال بہت مفید ہے، لیکن ان کے بقول کمپیوٹرائزیشن کا عمل بتدریج ہونا چاہیے اور کمپیوٹر کو تربیت یافتہ افراد کے ذریعے ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔
محمد عبداللہ کہتے ہیں کہ سالہا سال سے مینوئل طریقے سے کام کرنے والے بعض بد دیانت افراد سے کمپیوٹرائزڈ نتائج تیار کروانا چور کو چوکیداری کے فرائض سونپنے کے مترادف ہے، جس کے نتائج مثبت نہیں نکل سکتے تھے۔ ان کے بقول ملازمین کے رویوں کی تبدیلی کے بغیر اکیلا کوئی بھی کمپیوٹر سسٹم امتحانی نظام میں شفافیت نہیں لا سکتا۔
ذیشان حمید نامی ایک طالب علم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ غلط نتائج کا اعلان طلبہ و طالبات کی حوصلہ شکنی کا باعث بنا ہے۔ ان کے بقول اس واقعے کی تحقیقات کروانے اور ذمہ دار افراد کو سزا دیے جانے کے بعد بھی طالب علموں کو ہونے والے نقصان کی تلافی نہیں ہو سکے گی۔
ایک اور طالب علم بلال لطیف نے بتایا کہ پاکستان میں امتحانی نظام کو شفاف بنانے کے لیے سرکاری سطح پر ہونے والی پہلی بڑی اور سنجیدہ کوشش کی ناکامی ان طلبا کے لیے مایوسی کا باعث ہے جو اپنی محنت سے آگے بڑھنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کے بقول بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ امتحانی میدان میں بدعنوانی جیت گئی ہے اور کمپیوٹر ہار گیا ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عصمت جبیں