مراکش کے بورڈنگ سکول، لڑکیوں کے لیے امید کی علامت
8 نومبر 2011اس ادارے میں دور افتادہ دیہات سے آنے والی لڑکیوں کے لیے تعلیم کی سہولت حکومت کے اس پروگرام کا حصہ ہے جس کا مقصد ملک سے غربت اور ناخواندگی کا خاتمہ ہے۔ مراکش میں لڑکیوں کے اس سکول کی طرح کے 300 سے زائد دیگر سکول بھی ہیں۔ حکومت کا منصوبہ ہے کہ اگلے سال کے آخر تک اسی طرح کے 30 نئے تعلیمی ادارے بھی تعمیر کیے جائیں گے۔
ان سکولوں میں زیر تعلیم بچیوں کی مجموعی تعداد 16 ہزار 700 سے زائد بنتی ہے۔ یہ ادارے وہاں تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کے گھر بھی ہیں اور سکول بھی۔ وہاں زیر تعلیم طالبات کے لیے وہیں پر رہائش کا انتظام اس لیے کیا جاتا ہے کہ اکثر یہ لڑکیاں دور دراز کے دیہات کی رہنے والی ہوتی ہیں، جنہیں ﺍگر سکولوں میں ہی رہائش کی سہولتیں مہیا نہ کی جائیں تو وہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مراکش میں لڑکیوں کے ان سکولوں میں پڑھنے والی طالبات کی 70 فیصد سے زائد تعداد دیہی علاقوں کی بچیوں کی ہوتی ہے۔ ان لڑکیوں کو ایسے سکولوں میں داخلہ دینے کا عمل بڑا سادہ اور تیز رفتار ہوتا ہے۔ وسطی مراکش میں Ain Leuh نامی پہاڑی گاؤں میں ایسے ہی ایک سکول کی پرنسپل Souad Arkani کہتی ہیں کہ ان کے سکول میں ابھی حال ہی میں بہت سی نئی طالبات کو داخلہ دیا گیا۔ ان بچیوں کے لیے رہائش کا انتظام سکول سے کچھ ہی فاصلے پر کیا گیا ہے، جہاں ایک ہوسٹل میں رہنے والی اسی سکول کی طالبات کی مجموعی تعداد اب 35 ہو گئی ہے۔
مراکش میں نوجوان طالبات کے طور پر دیہی علاقوں کی لڑکیوں کے لیے اس طرح کی تعلیم اور رہائش کے انتظام کا سلسلہ سن 2004 کے بعد زیادہ تیز رفتار ہو چکا ہے۔ تب سربراہ مملکت کے طور پر شاہ محمد ششم نے ملک میں نافذ خاندانی قوانین میں بڑی دور رس تبدیلیاں متعارف کرائی تھیں۔
ان تبدیلیوں کی ملک میں قدامت پسند مذہبی حلقوں کی طرف سے مخالفت بھی کی گئی تھی۔ لیکن شاہ محمد نے اس بات کو یقینی بنایا کہ مراکش میں زیادہ سے زیادہ بچیوں کو تعلیم کی سہولت میسر ہو اور اگر وہ دیہی علاقوں کی رہنے والی ہوں تو بھی شہروں سے دوری ان کے ناخواندہ رہنے کا سبب نہ بنے۔
اس کے باوجود شمالی افریقہ کی عرب ریاست مراکش میں ابھی بھی بہت سی خواتین ایسی ہیں، جنہیں معاشرے میں دوسرے درجے کے شہریوں کی سی حیثیت حاصل ہے۔ مراکش کے دیہی علاقوں کے باشندے زیادہ تر قدامت پسندانہ سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہاں ابھی تک صرف 50 فیصد لڑکیاں ہی مڈل تک تعلیم حاصل کر پاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں اوسطاﹰ ہر دس لڑکیوں میں سے صرف دو ہی ہائی سکول تک تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔
حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ مراکش میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ اب وہاں کام کرنے والے لڑکیوں کے بورڈنگ سکول نوجوان نسل کے بہتر مستقبل کے لیے امید کی علامت بن چکے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح مراکش میں بھی ناخواندگی اور غربت کا خاتمہ نئی نسل کو تعلیم یافتہ بنا کر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک